جس کے ہاتھ میں بندوق ہے۔ اس سے بات چیت کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں کو کجا بلکہ طلبا کو بھی نہیں چھوڑا جارہا ۔ انہیں تعلیمی اداروں سے لاپتہ کیا جارہا ہے جن کے ہاتھ میں بندوق کی جگہ کتاب ہے۔ آخر یہ دوہرا معیار کیوں؟ مسلح جتھوں کے لئے کچھ اور پالیسیاں جبکہ بلوچ طلبا کے لئے کچھ اور پالیسیاں بنائی گئی ہیں۔ کوئٹہ میں جامعہ بلوچستان کے ہاسٹل سے دوطالبعلم سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کو جبری طور پر لاپتہ کیاگیا جس پر طلبا احتجاج کرنے پر مجبور ہو گئے۔ طلبا نے ان کی بازیابی کے لئے یونیورسٹی کے مین گیٹ کو تالے لگادیئے۔ بلوچستان یونیورسٹی کے اکیڈمک اور نان اکیڈمک سرگرمیوں کا بائیکاٹ کیاگیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کی جانب سے تشکیل دی جانے والی پارلیمانی کمیٹی نے طلبا کمیٹی کو یہ یقین دھانی کرائی تھی کہ وہ چار دن کے اندر دونوں لاپتہ طلبا کو بازیاب کروائیں گے مگر چار روزگزرنے کے بعد بھی ان کی بازیابی ممکن نہ ہوسکی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچستان میں ایک کٹھ پتلی حکومت قائم ہے۔ جس کا لگام کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔
حال ہی میں سیاسی کارکنوں کی گمشدگی میں تیزی آگئی ہے جن میں زیادہ تر تعداد بلوچ طلبا کی ہے۔ آخر کتاب سے اتنا خوف کیوں پیدا ہورہا ہے۔ ان طالبعلموں کے ہاتھوں میں بندوق نہیں بلکہ کتاب ہے۔ شاید کتاب کی طاقت بندوق سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے کتاب پڑھنے والوں کو لاپتہ کیا جارہا ہے۔ یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ جس قوم نے کتاب اور قلم کو اپنی منزل بنایاہے۔ وہ قوم دنیا کی طاقت ور قوم ثابت ہوئی ہے۔ وہ قوم دنیا کی خوشحال قوم بن گئی۔ شاید ہماری سرکار کو طلبا کو اس منزل سے ہٹانے کی کوشش کررہی ہے۔ ان کا مقصد ہے کہ بلوچ طلبا کتاب کی جگہ بندوق کا راستہ اپنائیں۔ مصیبت یہ ہے کہ بلوچوں کے حوالے سے ایک الگ مائنڈ سیٹ ہے۔ جس کے تحت ہر بلوچ کو دہشت گرد سمجھا جاتا ہے۔ چاہے اس کے ہاتھ میں کتاب ہی کیوں نہ ہو۔حالانکہ بلوچ طلبا تعلیم حاصل کرنے کے لئے مالی تنگ دستی کا شکار ہیں۔ 95 فیصد طلبا کا غریب گھرانوں سے تعلق ہوتا ہے۔ ان کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر اپنے والدین کا سہارا بنیں۔
طلبا کو دیوار سے لگانے کی پالیسیاں ختم کی جائیں ایسا نہ ہو کہ یہ طلبا تعلیمی اداروں کے بجائے پہاڑوں کا رخ کریں۔ ماضی میں بھی ایسے بے شمار واقعات رونما ہوئے ہیںجس میں سب سے بڑی مثال بلوچ گوریلا رہنما ڈاکٹر اللہ نذر کی ہے۔ ان کے ہاتھ میں بندوق کی جگہ کتاب تھی۔ جب انہیں کراچی سے اٹھایا جاتا ہے۔ ان کے لئے ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ انہوں نے کتاب کی جگہ بندوق کا راستہ اپنایا۔ اس وقت بے شمار بلوچ طلبا باغی بن چکے ہیں۔ شہداد بلوچ اور احسان بلوچ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ماسٹر ڈگری ہولڈر تھے۔ انہوں نے قلم کی جگہ بندوق کا راستہ کیوں اختیار کیاتھا؟
بلوچستان میں مسنگ پرسنز کا مسئلہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کو دنیا میں روشناس کرانے کا سہرا وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بانی رہنما ماما قدیر بلوچ کو جاتا ہے جنھوں نے دنیا کا سب سے طویل پیدل مارچ کرکے عالمی ریکارڈ توڑدیا۔ کوئٹہ سے براستہ کراچی، اسلام آباد تک مارچ میں شریک افراد کو لگ بھگ چار مہینے لگے تھے۔ اس مارچ نے چینی مارکسی عسکری و سیاسی رہنما، ماؤزے تنگ اور بھارت کے سیاسی اور آزادی کی تحریک کے اہم ترین کردار موہن داس گاندھی کے پیدل مارچ کا ریکارڈ توڑدیا تھا۔ مگر بدقسمتی سے تمام بلوچ سیاسی لاپتہ افراد کی بازیابی تو کجا،لانگ مارچ کے شرکاء کے خاندانوں سے تعلق رکھنے والوں کو بھی نہ چھوڑاگیا۔ اس پیدل مارچ میں طلباء رہنما ذاکر مجید بلوچ کی بہن فرزانہ مجید بلوچ، ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی بلوچ، رمضان بلوچ کے بیٹے علی حیدر بلوچ نے شرکت کی۔ لانگ مارچ میں شریک افراد کے پاؤں میں چھالے اور زخم پڑ گئے تھے لیکن کوئی سننے والا رحم دل نہیں تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بلوچستان کے لاپتہ افراد کے بارے میں دنیا آگاہ نہیں تھی۔
قلات ڈویژن کے علاقے سوراب سے تعلق رکھنے والے ماما قدیراس وقت لاپتہ افراد کی آواز بنے۔ جب ان کے اپنے بیٹے جلیل ریکی کو 13 فروری 2009 کو سریاب روڈ کیچی بیگ سے لاپتہ کردیاگیا۔ تین سال بعد یعنی 23 نومبر 2011 کو اس کی مسخ شدہ لاش ضلع کیچ سے ملی۔ ماما قدیر نے اپنے بیٹے کی گمشدگی کے بعد طے کیا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے دیگر لاپتہ افراد کی آواز بنیں گے۔اور وہ روزانہ کی بنیاد پر اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے رہے۔ یہ سلسلہ انہوں نے اپنے بیٹے کے اغوا کے فوراً بعد شروع کیا تھا۔ بارش ہو یا طوفان ماماقدیر کا احتجاج رکنے کا نام نہیں لیتا ، وہ سردیوں کے موسم میں احتجاجی کیمپ کراچی پریس کلب منتقل کردیتے ہیں اور گرمیوں میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے کیمپ لگاتے ہیں ،کبھی کبھار وہ اسلام اباد میں بھی احتجاجی کیمپ لگاتے ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے 2018 میں جنیوا کا دورہ بھی کیا اور جبری گمشدگیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کے اجلاسوں میں شرکت کی۔
آج بھی بلوچستان کو درپیش سب سے بڑا مشکل مسئلہ مسخ شدہ لاشوں اور لاپتہ افراد کا ہے اور مسئلے کا حل تلاش کیا جاناچاہیے۔ جو ایک سنگین انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ کوئی واقعہ کہیں ہوجاتا ہے تو دو آدمی چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ اور دس کو اٹھالیا جاتا ہے۔ لاپتہ افراد کے اہلخانہ کو آگاہ کریں کہ آیا اْن کے پیارے زندہ ہیں یا مر چکے ہیں۔ لاپتہ افراد کی بازیابی تک بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہوسکتے،سرکار کو اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا۔
بلوچ طلبا کے احتجاج سے معلوم ہوتا ہے کہ بلوچ معاشرے میں ایک سیاسی شعور بیدار ہوچکا ہے۔ یہ سیاسی شعور ریاست کے جبروستم نے پیدا کیا ہے۔ ہر نوجوان باشعور ہوچکا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کے مسائل کا حل قلم اور کتاب میں ہی ہے۔ تعلیم قوم یا معاشرے کیلئے ترقی کی ضامن ہے یہی تعلیم قوموں کی ترقی اور زوال کی وجہ بنتی ہے۔