|

وقتِ اشاعت :   November 20 – 2021

گزشتہ جمعرات کے روز ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کو بلآخر رہا کردیا گیا، ٹی ایل پی نے اسلام آباد کے فیض آباد میں دھرنا اور احتجاج کرکے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا تھا ،اس دوران ٹی ایل پی کے تین سو سے زائد کارکنان گرفتار ہوئے اور بعد میں اْنھیں رہا کردیاگیا۔

ٹی ایل پی کے دھرنا ،احتجاج اور ریلی کے دوران تشدد اور فائرنگ سے تین پولیس اہلکار جان بحق اور سترہ کے قریب زخمی ہوئے تھے ، اب معلوم نہیں کہ شہید پولیس اہلکاروں کے قتل کا مقدمہ کس کے خلاف درج کیا گیا ہے۔

ٹی ایل پی اور سعد رضوی کے مطالبات چونکہ قانونی آئینی اور جائز تھے اس لیے حکومت نے ٹی ایل پی اور مفتی سعد رضوی کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دی اور پس پردہ کچھ معاملات طے کرکے قصے کو تقریبا ًایک حد تک پارینہ بنا دیاگیا۔

اب آتے ہیں گوادر کے دھرنے کی طرف جہاں ’’گوادر حق تحریک‘‘ کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان کچھ ” ناجائز ” مطالبات لے کر گزشتہ چھ دنوں سے گوادر میں مکران بھر کے ناپسندیدہ لوگوں کو اکٹھا کرکے دھرنا دے بیٹھے ہیں اور تو اور مکران کی تاریخ کا پہلا کفن پوش ریلی بھی نکال چکے ہیں۔
چونکہ مولانا ہدایت الرحمان کے مطالبات ٹی ایل پی کے مفتی سعد رضوی کے مطالبات کی طرح جائز، قانونی اور آئینی نہیں ہیں اس لیے اْن پر ذرہ بھر بھی توجہ نہیں دی جارہی بلکہ اس کے برعکس سوشل میڈیا میں مولانا ہدایت الرحمان پر جماعت اسلامی کا لیبل لگا کر اْس کے جذبات کو پست کرنے کی کوشش کی جارہی ہے چونکہ مولانا ہدایت الرحمان انتہائی مضبوط اعصاب کے مالک ہیں وہ اس طرح کی باتوں سے خود کو ہلکان نہیں کررہے۔
سی پیک کے جھومر گوادر میں گوادر پورٹ کی مین شاہراہ پر دھرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے ،دھرنے میں مکران بھر سے لوگ شریک ہورہے ہیں ضلع بھر کے ماہی گیر،ایرانی بارڈر کے کاروبار سے وابستہ چھوٹے بیوپاری اور ” کہاں سے آرہے ہو، کہاں جارہے” جیسی ٹون سے تنگ تمام لوگ اِس دھرنے کا حصہ بنتے جارہے ہیں اور اپنے ” ناجائز” مطالبات کو منوانے کے لیے رات بھر دھرنے میں شریک ہوکر مولانا ہدایت الرحمان کے ”غیرآئینی” ہاتھوں کو مضبوط کررہے ہیں۔

مولانا ہدایت الرحمان کے جو ” ناجائز ” اور غیرقانونی مطالبات ہیں اْن میں سرفہرست مطالبہ میں ’’لوگوں کو عزت دو اور اْن کے عزت نفس کی تذلیل مت کرو‘‘ شامل ہے جو کہ انتہائی خطرناک قسم کا مطالبہ ہے۔

حب چوکی بلوچستان سے لے کر دوبیست پنجاہ ایرانی بارڈر تک چلے جائیں، اس روٹ پر ایسی سینکڑوں چیک پوسٹ موجود ہیں جہاں پر قانون اور ملکی پاسداری کے نام پر آئے دن کسی نہ کسی شخص کی عزت نفس کا ” خاص خیال” کیا جاتا ہے۔

گزشتہ دنوں جب میں رواں بہ سفر تھا تو وندر بلوچستان کے علاقے ناکہ کھاڑی میں سیکورٹی فورس کی جانب سے ایک نئی چیک پوسٹ کے قیام کو دیکھ کر خدا کا شکر بجا لایا کہ شکر ہے کہ سجیلے جوان موجود ہیں اور اْن کی موجودگی میں نہ منشیات کی اسمگلنگ ہوگی اور نہ ہی انسانی اسمگلنگ جیسا گھناؤنا دھندہ ہوگا کیونکہ منشیات کی روک تھام اور اْس کے خلاف بھرپور کارروائی کرنے کا عندیہ چیف آف آرمی اسٹاف جناب جاوید قمر باجوہ بھی دے چکے ہیں۔

اب مولانا ہدایت الرحمان بضد ہیں کہ اِن چیک پوسٹوں پر لوگوں کی تذلیل کی جاتی ہے ۔مولانا صاحب کو اب کون سمجھائے کہ بغیر تذلیل کے امن نہیں آتا،بغیر تذلیل کے ترقی نہیں آتی، جتنی زیادہ تذلیل اْتنی زیادہ ترقی ہوگی اور امن آئے گا۔

مولانا تذلیل کے عمل کو رکوا کر ترقی کو رکوانا چاہتے ہیں امن کو آنے سے روکنا چاہتے ہیں اب اِس طرح کے ” نا جائز ” مطالبات کو کیسے مان لیا جائے۔
گوادر دھرنا کے شرکاء بشمول مولانا ہدایت الرحمان کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ بلوچستان کے سمندر سے غیرقانونی ٹرالنگ کا خاتمہ کیا جائے اور اْنھیں 12 ناٹیکل میل کے اندر شکار سے روکا جائے ،
اللہ جانتا ہے کہ مولانا ہدایت الرحمان کا یہ مطالبہ بھی ناجائز ہے، بھئی سندھ کے ماہی گیر بھی پاکستانی ہیں اب پاکستان کے ماہی گیروں کو بلوچستان کے سمندر میں شکار کرنے سے کیسے روکا جائے،
مچھلی تو مچھلی ہے چاہے چھوٹی ہو بڑی، اْس کا شکار ” ریٹائرڈ سرکار ” کے ٹرالرروں کے لیے جائز ہے اور یہ اْن ریٹائرڈ ساہوکاروں کا پیدائشی حق بھی ہے ۔رہی بات 12 ناٹیکل میل کی تو اِس ” ملک دشمن” فیصلے کو ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا ۔ بلوچستان کی سرکار اور اْس کی اسمبلی کی کیا حیثیت کہ وہ بلوچستان کے مفلوک الحال ماہی گیروں کے روزگار کو تحفظ دینے کے لیے اسمبلی سے بل منظور کروائے ،اور 6 جولائی 1971 کا پاس کردہ آرڈینیس ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے اْس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

بھئی یہ تمام ٹرالر والے پاکستانی ہیں اور ہمیں صرف وطن عزیز ہی عزیز ہے باقی یہ اسمبلی سشمبلی کیا ہیں کہ جن کے پاس کردہ قانون کی پاسداری کی جائے اور ملک میں جو میرین پروڈکٹ کی قانون پاس کی گئی ہے وہ بھی ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے۔اب یہ باتیں جاکر کوئی مولانا ہدایت الرحمان کو سمجھائے کہ وہ ٹرالنگ کو روکنے جیسے ”ناجائز ” مطالبہ سے اجتناب کرے۔

مولانا کا ایرانی بارڈر کو اوپن کرنے اور ٹوکن سسٹم کو ختم کرانے کا مطالبہ بھی غیرآئینی ہے۔ ایرانی بارڈر کو اوپن کرنے اور ٹوکن سسٹم ختم کرنے سے ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔دیکھیں ٹوکن سسٹم سے جو پیسے ملتے ہیں وہ سارا پیسہ ملکی معیشت کو بہتر بنانے اور آئی ایم ایف کے قرضوں سے چھٹکارہ پانے کے لیے سرکاری خزانے میں جمع ہوتے ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں لوگ واویلہ کرتے ہیں خواہ مخواہ شک کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔کیونکہ بارڈر پر متعین اداروں کے اہلکار بیچارے بھوک ،پیاس برداشت کرکے صرف اپنی قلیل تنخواہ پر گزارہ کرکے دن رات ایرانی بارڈر پر ڈیوٹی دیتے ہیں یہ اْن کی ایماندارانہ کارکردگی کو مشکوک بنانے کے لیے دشمن کی جانب سے پیدا کردہ پروپیگنڈہ ہے۔

ایرانی تیل ،ایرانی ایل پی جی گیس اور یہاں تک کے ایرانی ٹماٹر جو ملک کے انتہائی چھوٹے صوبے پنجاب اور سندھ کی ضرورت ہیں وہاں جاتے ہیں اِس میں کیا بْرائی ہے۔مکران کے ان پڑھ لوگ ازل سے لکڑیاں جلا کر آگ جلاتے آئے ہیں ایرانی ایل پی جی گیس کا استعمال کرکے خود کو خوامخواہ اپ ٹو ڈیٹ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ لہذا مولانا ہدایت الرحمان اپنے تمام ” ناجائز” اور غیرقانونی مطالبات فوری طور پر بند کردیں اور مفتی سعد رضوی بننے کی کوشش بھی نہ کرے کیونکہ ٹی ایل پی ناز و نخروں سے پلی جماعت ہے اور گوادر دھرنے میں بیٹھے لوگ ماہی گیر ،ناپسندیدہ مخلوق، یہ کیا جانیں کہ آئین کیا ہوتا ہے اور قانون نام کی بھی کوئی چیز وجود رکھتا ہے۔