|

وقتِ اشاعت :   November 21 – 2021

تربت:  تربت پریس کلب کے پروگرام گند ء ْ نند میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے معروف اینکر پرسن و صحافی اکرم بلوچ نے کہا ہے کہ پورے پاکستان میں صحافیوں کو درپیش مجموعی مشکلات یکساں ہیں البتہ کچھ علاقوں میں زیادہ اور کہیں کم ہوسکتی ہیں، ہر علاقے میں میڈیا پر گرفت ہے اور شکنجہ میں کسا ہوا ہے، کراچی بڑا شہر ہے جہاں صحافیوں کی آواز بلوچستان کی نسبت جلدی پہنچ جاتی ہے اس وجہ سے شاید ان کے مسائل کچھ کم ہوں، یہ بھی ممکن ہے کہ میڈیا کے بڑے ادارے اور بڑے نام وہان ہونے سے مشکلات کچھ کم ہو، بلوچستان شروع سے میڈیا کے لیے تنگ اور مکمل آزادی نہیں رہا ہے۔

کہ صحافی وہاں خود مختار بنیاد پر صحافت کریں، بلوچستان میں ایک نہیں متعدد طریقوں سے صحافیوں کو تنگ کیا جاتا اور مشکلات پیدا کی جاتی ہیں، یہاں پر مسلح یا دہشت گرد یا شدت پسند تنظیم اور حکومت و سرکاری ادارے بھی تنگ کرتے ہیں جس سے صحافی بیچ میں سینڈوچ بنے ہوئے ہیں، مجموعی طور پر بلوچستان میں زیادہ صحافی شہید ہوئے، کچھ عرصہ پہلے کوئٹہ علاوہ پورے بلوچستا میں پریس کلب عتاب کے شکار ہوئے اور متعدد اضلاع میں پریس کلب خوف کے سبب بند کردیے گئے، انہوں نے کہا کہ بڑے میڈیا ہاؤسز بلوچستان کو اہمیت نہیں دیتے اور خبروں میں نظر انداز کرتے ہیں اس سے بھی یہاں ورکنگ جرنلسٹ کو مسئلہ ہے، صحافیوں کی خبریں بڑے میڈیا ہاؤسز میں نہیں چلتے ہیں مگر کراچی اور لاہو کی معمولی خبریں چلتی ہیں لیکن یہان کی بڑی خبریں اور واقعات آن ایئر نہیں ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں بھی اب آزاد بنیاد پر خبر نہیں دیے جاتے، میڈیا ہاؤسز میڈیا مالکان، سیاسی جماعتیں اور حکومتی اداروں کے شکنجے میں ہیں، انہوں نے کہا کہ صحافتی ورکشاپ اور تربیت تربت جیسے چھوٹے علاقے میں صحافیوں کے استعداد کار پر زیادہ اثرات مرتب کرسکتی ہے، صحافیوں کے لیے صحافتی اصول و قوانین کا جاننا لازمی یے مگر بدقسمتی سے تمام صحافتی ورکشاپ اور ٹریننگ میں تربت یا بلوچستان کے صحافی نظر انداز ہیں ایک صحافی جس ادارے کے ساتھ کام کررہا یے سنیئر صحافی یا مالکان مقامی صحافیوں کی رہنمائی کریں، اب بدقسمتی سے ایسے ادارے انسٹیٹیوٹ نہیں جو ٹریننگ یا تربیت دیں، ہماری کوشش ہوگی کہ مکران کو ایسے ورکشاپ میں جگہ دلائیں۔ پروگرام گند ء￿ ْ نند میں گفتگو کرتے ہوئے ادیب و شاعر وحید نور نے کہا کہ تربت میں کچھ ترقی نظر آرہی جو حوصلہ افزا ہے۔

اگر حکومت نیک نیتی کے ساتھ ترقی کا آغاز کرے تو یہاں لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی آسکتی ہے، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صرف صحافت کا شعبہ نہیں بلکہ تمام ادارے زوال کا شکار ہیں اس دور کے شعار و ادباء اور میڈی مین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دور کے مشکلات بیان کرے، یہ زمانہ گیسو اور زلف کا نہیں بلکہ کرب و دکھ بیان کرنے کا ہے، شعراء کو چاہیے کہ وہ عوام کے دکھ و درد اور مشکلات پر بھی کب کشائی کریں، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچی زبان کو معدومیت کا ابھی کوئی خطرہ لاحق نہیں کیوں کہ بلوچی زبان میں لکھنے پڑھنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے، منیر بادینی نے 109 ناول لکھے منیر مومن اور مبارک قاضی جیسے شعراء کی موجودگی میں یہ زبان کبھی گم نہیں ہوسکتا، انہوں نے کہا کہ تین لاکھ کے قریب بلوچوں کی آبادی ہے یہ لکھت اور رائٹنگ کی زبان ہے، بلوچی زبان کے مستقبل پر میں پر امید ہوں، بلوچوں میں زبان کے حوالے سے دلچسپی بہت زیادہ ہے، سیاست ادب اور زبان سے محبت ہمارے خون میں شامل ہے، البتہ ہمیں اپنے بچوں کو دیگر زبانوں کے ساتھ زبان اور ربیدگ سے آشنا کرانا ضروری ہے، بلوچستان سے باہر رہنے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنی زبان کا خیال رکھیں، انہوں نے کہا کہ کسی زبان کی حفاظت اور تحفظ کے لیے معاشی منڈی اور تدریس دو اہم جز ہیں، ہمارے ہان گوکہ اب تک یہ دونوں چیزیں نہیں تاہم بلوچی زبان ایک تناور اور ترقی پزیر زبان ہے اس کا مستقبل محفوظ ہے تربت معاشی منڈی کی کمی کچھ حد تک پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اگر اس پر کچھ زیادہ توجہ دیا گیا تو اس کے اثرات زبان و ادب پر مثبت پڑیں گے۔