ٹراٹسکی کا کہنا تھا کہ طلباء درختوں کی بلند ٹہنیوں کی طرح ہوتے ہیں جو آنے والے انقلابی طوفانوں میں سب سے پہلے جھولنے لگتی ہیں اوران انقلابی ہواؤں کی آمد کا پیغام دیتے ہیں۔ طلبہ اپنی اس نسبتاً آزادانہ کیفیت میں سماجی حرارت کا بیرومیٹر ہوتے ہیں اور معاشرے کی تہوں میں چلنے والی کیفیات اور عوامل کی غمازی کرتے ہیں۔
دنیا کے جمہوری ملکوں میں طلباء سیاست کو سیاست کی نرسری کہاجاتا ہے جہاں پڑھے لکھے ماحول میں اپنی بات کرنا اور خدشات کا کھل کر اظہار کرنا تعلیمی اداروں کا خاصہ ہوتا ہے، تاہم پاکستان میں طلبہ کے لیے اپنے حقوق کی بات کرنا آسان نہیں۔ملک میں اسٹوڈنٹ یونینز پر پابندی تو جنرل ضیا الحق کے آمرانہ دور میں لگی لیکن اس کے بعد آنے والی جمہوری حکومتیں بھی دعوئوں کے باوجود طلباء تنظیموں کو بحال نہ کر پائیں۔
جمہوریت سے وابستہ طبقہ نوجوانوں کے حقوق و موثر قانون سازی کی بات تو کرتا ہے مگر عملًا اقتدار ملنے پر تمام کئے وعدے بھول جاتا ہے ۔پاکستان میں شفاف جمہوری استحکام کی راہ میں بڑی رکاوٹ گزشتہ 35 سال سے طلبا یونینز پر عائد جبری پابندی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں طلبہ یونینز کو نوجوانوں کا آئینی حق تسلیم کرتی ہیں لیکن حکومت بنانے کے بعد اس مسئلہ سے پہلو تہی کرتی ہیں۔9 فروری 1984ء کو پاکستان کے تعلیمی اداروں میں طلبا یونینز پر عائد کی جانیوالی پابندی کیساتھ ہی تعلیمی اداروں میں طلباء کی نشو ونما، بہبود اور صحت مند مباحثے کا کلچر ختم ہوگیا۔اس غیر آئینی اقدام کے باعث ہم تعلیمی اداروں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت اور نوجوانوں کی غیر تدریسی مثبت سرگرمیوں میں شمولیت سے محرومی کا بحیثیت قوم نقصان اٹھا رہے ہیں۔
ڈکٹیٹر ضیاء الحق کی جانب سے لگائی جانیوالی پابندی کو جمہوریت کے چیمپیئن حکمرانوں نے وعدوں کے باوجود بھی ختم نہ کیا۔ 1970ء سے 1980ء کی دو دہائیوں میں طلباء سرکل کے پلیٹ فارم سے سیاست، سائنس، طب، انجینئر نگ، ادب، صحافت سمیت ہر شعبے میں ملک کو بہترین قیادت اور غیر معمولی لوگ میسر آئے۔طلباء سیاست کی تربیت گاہوں سے نکلنے والے افراد نے دنیا بھر میں اپنی صلا حیتوں کا نہ صرف لوہا منوایا بلکہ ملک کے لئے گراں قدر خدمات بھی سر انجام دیں۔طلبا ء پر محض سیاست کرنے کا الزام عائد کیا جا تاہے اور ان طلباء کی سیاست میں شمولیت مناسب نہیں سمجھی جاتی۔ لیکن انہی یونینز کے پلیٹ فارم سے اپنے عہد کے سیاسی، فلسفیانہ اور سائنسی موضوعات اور نظریات پر صحت مندانہ مباحثے، آرٹ اورکھیلوں کے مقابلہ جات، ادبی مشاعرے منعقد ہوتے تھے الغرض طلباء اپنے عہد کی دانش سے جڑے رہتے تھے۔ انہیں ادراک ہوتا تھا کہ عالمی ممالک کے درمیان کیا تضادات اور اختلافات چل رہے ہیں علاقائی اور ملکی سیاست میں کیا صف بندی ہے۔اپنے حقوق کے کیلئے کیسے آواز بلند کرنی ہے۔ان کے درمیان ہر وقت مقابلے کی صلاحیت اور قیادت کرنے کا جوہر مو جود ہوتا تھا۔ وہ اختلافات کو گفتگو کے کلچر سے با آسانی حل کرنے کا ہنر رکھتے تھے لیکن آج تعلیمی اداروں میں موجود طلبہ کی بڑی تعداد مذکورہ سرگرمیوں میں شامل نہیں ہیں۔تعلیمی اداروں میں طلبا سیاست پر پابندی کے بعد تعلیمی ادارے بالخصوص جامعات کی فضا میں بے چینی، انتہاپسندی، عدم برداشت، لسانیت، صوبائیت پر مبنی پر تشدد رویوں نے جنم لیا۔
دنیا کے تمام طلباء تحریکوں میں بلوچ طلبا تحریک سرفہرست اور اپنی ایک الگ جگہ رکھتی ہے جہاں طلبا نے مختلف ادوار میں بہت سی اذیتیں سہی ہیں ۔جنرل ضیاء الحق کے نقش قدم پر چلنے والے جنرل مشرف کے دور میں بلوچ طالب علموں کو اغواء کیا گیا، بلوچ طالب علموں کے سرکلوں پر حملے کئے گئے، بہت سے طلباء قتل ہوئے اسی کا تسلسل آج تک جاری و ساری ہے۔اس وقت بلوچستان یونیورسٹی کے داخلی راستے پر جہاں طلباء و طالبات دھرنا دیئے بیٹھے ہیں وہاں مختلف بینرز اور مطالعہ پاکستان کے لاپتہ طالب علم سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کی تصویریں آویزاں ہیں۔ طلباء کا دعویٰ ہے انہیں نومبر کے شروعات میں یونیورسٹی ہاسٹل سے لاپتہ کیا گیا ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے 2018 اور 2019 میں بلوچستان یونیورسٹی میں اسکینڈل کے وقت جب کورٹ نے اس وقت کے وائس چانسلر سے سوال کیا کہ کیمرے کیوں لگائے گئے ہیں اس کا جواب تھا جی سیکورٹی کا مسئلہ ہے اس لیے ہم نے خفیہ کیمرے لگائے ہیں۔ جب سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کو اغوا کیا جاتا ہے تو بدقسمتی سے ان کا کیمروں کا رخ پہلے کی طرح لیٹرینوں اور فیمیل طالبات کے آنے جانے والی راستوں کی طرف ہوتا ہے۔
بلوچستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے طلبا سیاست پر پابندی ہے کبھی کبھار طلباء رہنماؤں کے لیے یونیورسٹی کا مین گیٹ بند کیا جاتا ہے کبھی انہیں مختلف حربوں سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔تعلیمی ادارے کے سربراہ سے لیکر نیچے تک سیاست چلتی رہتی ہے جب طالب علم سیاست کی بات کرتا ہے سیاسی عمل اور علمی آگہی پھیلانا شروع کرتا ہے اپنی حق کی بات کرتا ہے تو اس کے لیے قدغن ہے ،یہاں پر سیاست گناہ ،سیاست گالی ہے۔ بھئی طلباء سیاست سے اتنا خوف کیوں۔
یونیورسٹی بلوچستان کے حالیہ اسیکنڈل سے بہت سے طالبات نے اپنی ڈگری ادھوری چھوڑ کر گھروں کو واپس لوٹے ،اس وقت کے کرپٹ وی سی کو اضافی چارج دے کر لاہور بھیجا گیا ۔بلوچ اور پٹھان طالبات کی عزت کو بیچ کر موصوف کو لاہور یونیورسٹی میں ایک اور پوزیشن پر براجمان کیا گیا۔
اس دھرنے پر بیٹھے بی ایس او پجار کے مرکزی چیئرمین زبیر بلوچ کا کہنا ہے کہ سب بڑا مسئلہ یونیورسٹی کے احاطے میں سیکورٹی ادارے کی ایک کیمپ کی موجود گی ہے جس سے تمام طلباء و طالبات عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ان کے مطابق اس وقت یونیورسٹی کیمپس میں 146 کیمرہ لگے ہوئے ہیں ۔اور 290 کے قریب کیمرے یونیورسٹی ہاسٹلز گارڈن لائبریری کینٹین اور مختلف جگہوں پر لگائے گئے ہیں۔ نہ جانے اتنے کیمرے کس کو واچ کررہے ہوتے ہیں ان کیمروں کے سامنے سے طلباء کو اغوا کیا جارہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہائی کورٹ کی ایک ججمنٹ موجود ہے کہ یونیورسٹی سے سیکورٹی کو نکالا جائے مگر اب تک 300 کے قریب نفری یونیورسٹی میں موجود ہے جن سے تعلیمی ماحول خراب ہوتا جارہا ہے۔ مگراب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ طلباء سینکڑوں ریاستی اداروں کے اہلکاروں اور لاکھوں خفیہ کمیروں کے سامنے سے لاپتہ ہورہے ہیں مگر یہاں بھی یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق جی اس وقت لوڈشیڈنگ تھا۔
دنیا کی تمام بڑی مزاحمتی تحریکیں طلبہ کی شمولیت سے ہی کامیاب ہوئی ہیں اس لیے جب طالب علم ’سرفروشی اور بازوئے قاتل‘ کی بات کرنے لگیں تو حکومت کو ان کے مطالبات پر گہری اور سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر طلبہ کے مطالبات پر توجہ نہ دی گئی تو ملک میں گھمبیر سیاسی صورت حال پیدا ہونے کا خدشہ سر وںپر منڈلاتا رہے گا۔
آج بلوچ طلباء تحریک ستر کے دہائی کے بعد متحرک نظر آرہی ہے اب بلوچ طلباء کے لیے موقع ہے کہ وہ اپنی اس تحریک کولے کر کہاں تک کامیاب ہونگے اب ان کے کندھوں پر صرف کتاب کا بوجھ نہیں بلکہ قومی بوجھ کو لے کر ایک ساتھ بلا تفریق آگے بڑھنا ہوگا۔