|

وقتِ اشاعت :   November 25 – 2021

مندرجہ بالا جملہ آج کل اس حد تک عام و خاص کی زبان پر ہے کہ گویا یہاں سب کے حقوق مارے گئے ہیں۔ ہوسکتاہے کہ یہ اندازہ غلط بھی نہ ہو، کسی کو اس کا حق نہ دینا یا حق کے حقیقی حصہ سے کم دینا بھی حق تلفی ہے، اسی طرح کسی کو اس کی حیثیت اور حصہ سے زیادہ دینا بھی حق تلفی ہے۔ یہ نعرہ اب ایک نعرہ نہیں اظہار غم و الم کا نعرہ بن چکا ہے جو ملک نیک مقاصد کے لئے بنایا گیا تھا ،شاید اس کی خمیر میں کچھ پلید مٹی شامل ہوگئی تھی اس لئے پون صدی عمر پانے کے باوجود پرنالہ اپنی جگہ جوں کا توں بر قرار ہے ۔

اتنے عرصہ میں حقوق کا تعین اور اعطاء میں جتنی کوتاہیاں ہوئیں انصاف سے دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ اس زمین پر وہ عمارت ابھی تک تعمیر نہیں ہوئی ہے جس کا وعدہ کیا گیا تھا ۔بر صغیر کی تقسیم اور بعض خود مختار سلطنتوں کا نئے جغرافیائی تقسیم میں اپنا وجود کھونا خوش نما خود فریبی تھا جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ قرنوں اور نسلوں کے بلوچ سلطنت اور حاکمت کا پاکستان کا حصہ ہونا صرف اس حد تک ہے کہ پاکستان کا جغرافیائی حدود وسیع ہونے کے ساتھ وہ ایک طویل ساحل کا بھی مفت میں مالک بن گیا، اسے ایک انتہائی قیمتی فضائی گزر گاہ بھی تحفہ میں ملا ،وسط ایشیاء اور مشرق وسطیٰ کی ہمسائیگی ہدیہ میں ملی۔اس لیے سقوط ڈھاکہ کے بعد کے پاکستان کا 48فیصد زمینی رقبہ اسی فیصد ساحلی علاقہ بلوچستان ہے مگر ان سب کی بلوچستان کے لیے اہمیت بس اس حد تک ہے کہ اس تما م وسائل بغیر کسی خوف وندامت کے اسلام آباد کی تحویل میں ہیں اور اسلام آباد کی تقسیم وسائل پروگرام میں بلوچستان کو اونٹ کے منہ میں چند زیرے دئیے جاتے ہیں ۔

ملک کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اب ایک سماجی اجتماعی قبول شدہ برائی بن گئی ہے ۔اور مزے کی بات یہ ہے کہ کرپشن ،کام چوری، دائمی حل سے فرار اب حاکمیتی کلچر بن گیا ہے اور اس کلچر نے تمام اذہان اور سلیقوں کو متاثر کیا ہے ۔اس صورت حال کی ذمہ داری لینے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے بلکہ مستزادیہ کہ یہ تمام خرابیاں مکان کی نحوست قرار دئیے جاتے ہیں جبکہ قصور مکین کا ہے ۔ اب پاکستان میں ہر ایک یہی محسوس کرتا ہے کہ اس کے ساتھ نا انصافی ہورہی ہے اس لیے دیکھا جاتا ہے کہ عام لوگ مایوسی کا شکار ہیں اور پاکستان سے بیزاری کی ایک بھوت نے پنچے گاڑے ہیں ۔البتہ اس عمومی فضا میں ایسے مخصوص لوگ بھی ہیں جواب بھی پاکستان کی سالمیت کے علمبردار قرار دئیے جاتے ہیں اور اگر ان کے نعروں کی گہرائی میں جایا جائے تو وہ بھی یہ نعرے مفت میں نہیں لگاتے بلکہ ان کو بھر پور مراعات اور صلہ ملتا ہے ۔یہ لوگ مقتدرہ کے سدھائے ہوئے گھوڑے یا سرکس کے شیر بن کر مال و جائیداد بناتے ہیں۔

مقتدرہ کو یہ بات پسند نہیں کہ انہیں بتایا جائے کہ پاکستان کو جینے دو’ اور اگر بتائے تو کون بتائے کیونکہ اب بھی دنیا میں طاقتور لوگ صرف وہ بات سنتے ہیں جن سے ان کے عالمی مفادات کا بھلا ہو ۔ہماری مقتدرہ اس خوف میں مبتلا ہے کہ اگر وہ حق دے تو اس کے لئے کیا بچے گا؟ موجودہ صورت حال کا حل یہی ہے کہ پاکستان کو وہی تشخیص اور وجود دیا جائے جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔اب خوشنما وعدے مایوسیوںکا ازالہ نہیں کر سکتے بہتر ہے کہ خوشنما عمل سے حقیقت پسندی کا اعتراف کیاجائے اور پاکستان کو عوام کے سپرد کردیا جائے اور سیاسی طوائف الملوکی کی جگہ شعوری جمہوری تحریک کا میدان تیار کیاجائے اور مقتدرہ عوام کو قرار دیاجائے اور نوکری شاہی کے بجائے عوام کی حاکمیت یقینی بنائی جائے۔ میرے ناقص خیال میں اب بھی زخم قابل علاج ہیں۔اور اگر یہ سلسلہ اسی طرح برقرار رہا تو سب کچھ ہر ایک سے چھن جائے گی اور یہی سیاسی کلچر عوام پر بھی اثر انداز ہو کر ایک ایسی تہذیب کی روپ دھار لے گی جس میں کرپشن‘ کام چوری ‘ دائمی حل سے فرار کے عادی لوگ مسلط ہونگے اور یہی رفتار بے ڈھنگی آنے والی نسلوں کو جینیاتی وراثت میں ملے گی ۔
اس لیے میں کہتا ہوں پاکستان کو حق دو اور پاکستان کا حق یہی ہے کہ تمام تضادات کو ختم کرکے انصاف اور انسان دوستی کی بنیاد پاکستان کے وعدے پورے کیے جائیں ۔
اور وہ ہے فلاحی اسلامی مملکت، جمہوری طرز حاکمیت۔