جام خاندان اپنی مصلحت پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے ہمیشہ اور ہر دور میں اقتدار میں رہاہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت بنی تو اس میں شامل ہوئے، جب (ن) لیگ کی حکومت بنی تو (ن) لیگ میں شامل ہوکر اقتدار کے مزے لیتے رہے۔ جنرل پرویز مشرف کا آمرانہ حکومت کا حصہ بنے۔ جمہوری اور غیر جمہوری سب کا ساتھ دیا کیونکہ ان کے پاس اپنا کوئی سیاسی اور نظریاتی اصول نہیں ہے۔ ان کا اصول صرف اقتدار حاصل کرنے کا اصول رہا ہے یہ کبھی تصادم میں نہیں گئے اور نہ ہی اپنے عوام کی خاطر قیدو بند کی اذیتیں جھیلیں۔لسبیلہ کی مقامی آبادی کو اپنی اطاعت گزاری، تعریف و توصیف پر لگا دیا اور تابعداری کے گْر سکھائے۔
یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ مقامی آبادی ضلع میں ہونے والی تبدیلیوں سے لا تعلق اور دیگر اہم و بنیادی مسائل سے بیگانگی اختیار کئے ہوئے ہیں۔جب اپوزیشن کی جانب سے وزیراعلیٰ جام کمال پر جو تا پھینکا گیا تو لسبیلہ کے لوگوں نے جرگہ بلا کر اس پر اپنی بھرپور ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے جام سائیں کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا اور اپوزیشن کو دھمکی دی کہ اگر اس نے اپنا رویہ نہیں بدلا تو اپوزیشن کو لسبیلہ میں جلسہ کرنے نہیں دیں گے۔ لیکن لسبیلہ کی زمین ان کے پاؤں تلے سے کسک رہی ہے۔یہاں کا پانی اور دیگر وسائل چوری ہورہے ہیں۔یہاں کے درخت کاٹے جارہے ہیں۔بے روزگاری عام ہے لسبیلہ کا کاروبار غیر مقامیوں کے ہاتھ میں ہے مقامی آبادی کی حیثیت صارف کی ہوکر رہ گئی ہے۔ ان عوامی مسائل پر مقامی آبادی نے کبھی جرگہ بلانے کی زحمت نہیں کی، نہ کبھی آواز بلند کی۔ چنانچہ جن قوتوں نے انہیں انتخابات میں کامیابی سے ہمکنار کیا انہی قوتوں نے انہیں مسند اقتدار پر بٹھایا او رانہیں بلوچستان میں اپنی نو آبادیاتی گرفت کو مضبوط کرنے اور مالی مفادات کے لئے استعمال کیا۔ مرحوم جام غلام قادر، مرحوم جام یوسف، موجودہ جام کمال خان کے دور اقتدار سے بلوچستان شدیدسیاسی، معاشی اور انسانی المیہ کا شکار رہا۔ بلوچستان کے عوام بالخصوص بلوچ عوام ریاستی جبر کا شکارہوتے رہے لیکن انہیں اس کی کوئی پروا نہیں۔ انہیں صرف اقتدار اور اپنی وفاداریاں نبھانے سے سروکار رہاہے۔
2018ء کے انتخابات سے قبل سردار صالح محمد بھوتانی اور جام کمال (ن) لیگ میں تھے جب (ن) لیگ پر عتاب نازل ہوا تو (ن) لیگ سے وفاداریاں توڑ کر نوزائدہ سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت کا اشارا ملا تو باپ پارٹی میں شامل ہوئے ۔جن قوتوں نے بلوچستان کے مخصوص حالات کے پیش نظر بلوچستان کی سیاسی اقتدار کو اپنے تابع کرنے کے لئے بلوچستان عوامی پارٹی کی تشکیل کی تو جام کمال کو پارٹی کا صدر بنوایا۔ 2018ء میں ہونے والے انتخابات سے چند ہفتے قبل بننے والی غیر مقبول جماعت جس پر میں بھانت بھانت کے غیر معروف موقع پر ست چاپلوسوں کو شامل کیا گیاجنہیں 2018ء کے انتخابات میں مقبول سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور نامور شخصیات پر برتری دلوار کر مسند اقتدار پر بٹھادیا گیا اور جام کمال کو بلوچستان کا وزیراعلیٰ بنوایا۔ تین سال جام کمال وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔ تین سالوں میں ایسا کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دیا جسے ضبط تحریر میں لایاجاسکے۔ ان کے دور میں گمشدہ افراد کا مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ گمشدہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہے۔ عوام کی محرومیوں میں اضافہ ہوا۔ عوام صحت و صفائی، بنیادی ضرورتوں اور انصاف کے حصول کے لئے ترستے رہے۔ امن و امان کی صورت حال مخدوش تھی، گھر گھر میں ڈاکے پڑنے لگے۔
نامعلوم افراد گھروں میں گھس کر شہریوں کو قتل کرتے رہے ،ملک ناز نامی خاتون کا قتل ہوا۔حیات بلوچ کی شہادت ہوئی لاشوں کے گرنے کا سلسلہ تھم نہ سکا۔بلوچستا ن کے ماہی گیروں کو سمندر سے بے دخل کرکے ان کے صدیوں کا روزگار چھین لیا گیا۔ ان کے دور میں ایرانی بارڈر بند ہوا جس کے باعث لاکھوں گھرانوں کو روزگار سے محروم کرکے نان شبینہ کا محتاج بنادیا گیا، وہاں کے لوگ آج بھی جام کمال کو بد دعائیں دے رہے ہیں۔ شہریوں کی عزتیں غیر محفوظ تھیں۔ طلباء کو تعلیمی اور دیگرسہولیات فراہم کرنے کی بجائے مستقبل کے معماروں کو پولیس کے ذریعے بے رحمانہ لاٹھی چارج اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انہیں گرفتار کرکے ان پر مقدمات قائم کئے گئے۔ خواتین پر تشددکیا گیا۔ جام کمال کی حکومت سے بلوچستان کا تاجر، زمیندار، ٹرانسپورٹر، کاروباری طبقہ حتیٰ کہ سرکاری ملازمین بھی تنگ آچکے تھے۔ سرکاری اداروں میں مزدوروں کی ٹریڈ یونینز پر عدالت کے ذریعے پابندی عائد کروائی۔ پبلک سیکٹر میں خدمات انجام دینے والے اداروں کے فنڈز روک کر اداروں کو غیر فعال کردیا۔ ترقیاتی کام رک گئے۔ شمالی بلوچستان کے چند ممبران اسمبلی کے دباؤ میں آکر تحصیلوں کو ضلع کا درجہ دیا، چند اضلاع کو ملا کر ایک نیاڈویژن بنایا۔ لیکن بلوچ علاقوں کی پسماندگی پرتوجہ نہیں دی حتیٰ کہ اپنے آبائی ضلع لسبیلہ جہاں سے منتخب ہوکر آئے تھے ایک منصوبہ بھی لے کر نہیں آئے۔ گڈانی، ڈام اور سونمیانی کے ماہی گیروں کے فلاح کے لئے کوئی کام نہیں کیا۔ نہ یہاں لاء کالج، میڈیکل کالج اور پورالی ڈیم کے لئے فنڈز مختص کیا نہ لسبیلہ کے مقامی آبادی کو روزگار دلانے کے لئے حب کے کارخانوں کے 75فیصد کوٹہ پر عمل درآمد کراسکا، نہ سرکاری اداروں میں انہیں روزگار دلا سکے۔ ضلع کے تعلیم، صحت عامہ اور عوامی مسائل پر توجہ نہیں دیا۔ ان کی حکومت نے لسبیلہ میں غیر مقامی آبادی کی یلغار کو روکنے کے لئے اقدامات نہیں اٹھائے۔
بلکہ ضلع سے کامیاب ہونے والے نمائندوں کے فعال ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد روک دیا جس کی ایک زندہ مثال حب شہر کی وسط سے گزرنے والے برساتی نالے کی ہے۔ اپنے مخالفین کو انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنایا۔سردار صالح محمد بھوتانی کے خلاف تادیبی کاروائی کرتے ہوئے ان کی وزارت ان سے چھین کر انہیں سبکدوش کردیا۔ حالانکہ بھوتانی برادران میں جام کمال کا تعلق ضلع لسبیلہ سے ہے اور اسی ضلع کے عوام نے انہیں منتخب کیا تھا اس پس منظر میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تینوں ممبران مل کر اپنے عوام کی خدمت کرتے اور ضلع کو ترقی دینے کے لئے فنڈز حاصل کرتے لیکن ان کی باہمی چپقلش کے باعث ایسا نہیں ہوسکا۔ ان کے دور میں باہر کے با اثر افراد نے وزیراعلیٰ کی آشیر باد سے لسبیلہ بالخصوص حب کی زمینوں پر قبضہ کرکے ہاؤسنگ اسکیم بنانے لگے۔ لیکن محمد اسلم بھوتانی کی مخلصانہ کوششوں نے اس منصوبہ کو ناکام بنادیا۔ حب ڈیم کا پانی جو یہاں کے عوام اور زمینداروں کی ملکیت ہے عوام کی مرضی کے خلاف کراچی کے ملٹی نیشنل کمپنی کے لئے روزانہ کی بنیاد پر چھ لاکھ گیلن پانی کا اجراء کیا۔
جا م کمال کے خلاف باپ پارٹی کے اندر اس وقت بغاوت پھوٹ پڑی جب جام نے اپوزیشن کے ارکان کے فنڈز روکنے کے ساتھ ساتھ اپنے پارٹی کے ارکان اسمبلی کے فنڈز کا اجراء بھی روک دیا۔ جام کمال کے ان اقدامات نے پارٹی کے ناراض گروپ کو اپوزیشن کے قریب کردیا کیونکہ ان کے مفادات جڑے ہوئے تھے۔ جام کمال اس خوش فہمی میں تھے کہ انہیں مقتدرہ کی آشیر باد حاصل ہے اس نے معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لیا وہ اپنے کم تجربات کے باعث اس بات کا ادراک لگانے سے عاری تھے کہ انہیں لانے والوں کو اب مزید ان کی ضرورت نہیں رہی ہے۔ وہ بلوچستان کے وزارت اعلیٰ کا چہرہ تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ اسی تناظر میں جام کمال کو اپوزیشن سے اتنا خطرہ لاحق نہیں تھا انہیں اپنے پارٹی کے ارکان اسمبلی سے زیادہ خطرہ درپیش تھا اس لئے وہ اپنے وزارت اعلیٰ کی کرسی کو بچانے کی تگ دو میں لگ گئے۔ 7ستمبر کو جام کی حکومت بچانے کے لئے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کوکوئٹہ آنا پڑا۔ انہوں نے جام اور نارض ارکان کے درمیان مفاہمت کرانے، ناراض ارکان سے ملاقات کی، منت سماجت کیا مگر ناراض ارکان نے جام کمال کے ساتھ مفاہمت کرنے سے صاف انکار کردیابلکہ جام کو وزیراعلیٰ تسلیم کرنے سے ہی انکار کیا۔16ستمبر کو حزب اختلاف کے 16ارکان اسمبلی نے وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد اسمبلی سیکرٹریٹ میں س جمع کرادی اس کے جواب میں جام کمال نے کہاکہ مجھے تحریک عدم اعتماد کی ذرا سی بھی پروا نہیں۔ اس نے وزیراعظم عمران خان کو فون کرکے انہیں اعتماد میں لیا پھر ایک وفد لے کر اسلام آباد چلے گئے جہاں انہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی۔ آرمی چیف نے بلوچستان حکومت کے اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا کہ بلوچستان پاکستان کا مستقبل ہے اور بلوچستان کی ترقی پاکستان کی ترقی سے جڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ صوبائی حکومت عوام کی منتخب حکومت ہے اور خوشی کی بات ہے کہ عام آدمی کی حالت بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دے رہی ہے بلوچستان کی حکومت درست سمت کی طرف جارہی ہے۔ وزیراعظم نے بھی جام کمال خان کی حکومت کی حمایت میں کہا کہ جام کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
3اکتوبر کو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی ایک مرتبہ پھر کوئٹہ آئے اور باپ پارٹی کے ناراض ارکان کو منانے کی کوشش کی، مصالحتی کمیٹی بنائی مگر ناراض گروپ اپنے موقف پر ڈٹی رہی اور جام کمال کے ساتھ چلنے سے انکار کیا۔ بلکہ اس موقع پر وزیراعلیٰ کو 15دنوں کی مہلت دی کہ وہ پندرہ دنوں کے اندر وزارت اعلیٰ کے عہدے سے مستعفی ہوجائیں۔ مگر وزیراعلیٰ نے استعفیٰ دینے سے انکار کیا۔ چنانچہ ناراض اراکین نے پریس کانفرنس کیا۔ انہوں نے جام کمال خان پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے اتحادیوں کے ساتھ کئے ہوئے وعدے پورے نہیں کئے انہوں نے دعویٰ کیاکہ انہیں 28ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہے لہٰذا جام کمال کو مستعفیٰ ہونا چاہئے۔ اس پر جام نے کہا کہ اگر میرے خلاف تحریک اعتماد لائی گئی تو میں اس کا ڈٹ کر مقابلہ کروں گا۔
7اکتوبر کو جام پر دباؤ ڈالنے کے لئے تین وزراء نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔ جس کے بعد باپ پارٹی دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ 11اکتوبر کو اپوزیشن نے جام کمال کے خلاف دوسری مرتبہ تحریک عدم اعتماد جمع کرائی اس کے فوراً بعد ناراض ارکان کو اسلام آباد طلب کیا گیا۔ ناراض ارکان کو اسلام آباد کیوں طلب کیا گیا ان سے کیا بات چیت ہوئی، کیا ہدایات ملیں، کچھ پتہ نہیں مگر ناراض گروپ اپنے موقف پر قائم رہا۔جام سائیں بوکھلاہٹ میں آکر پارٹی کی صدارت سے مستعفی ہوئے ا س کے بعد جام سائیں کی حیثیت پارٹی میں پہلے والی نہیں رہی۔
14اکتوبر کو جام کمال نے کہاکہ تحریک عدم اعتماد کا سامنا کروں گا مخالفین کو شکست ہوگی۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ اتحادیوں کے علاوہ ناراض ارکان کے ایک بڑی تعداد میرے ساتھ ہے در اصل جام کو ہٹانے کا فیصلہ ہوچکا تھا مگر جام حالات کے تناظر کو نہیں سمجھ سکے۔ اس دوران مکران کے علاقہ ہوشاب میں ایف سی کی گولہ باری کی زد میںآ کر دو کمسن بچے شہید ہوئے۔ان بچوں کے ورثاء نے بچوں کی لاشیں لاکر ریڈ زون وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا لیکن وزیراعلیٰ اپنی کرسی بچانے کی چکر میں اتنے مصروف تھے کہ وہ ایک لمحہ کے لئے بھی ان معصوم اور بے گناہ بچوں کی لاشیں دیکھنے نہیں آئے۔ نہ اپنے کسی وزیر کو بھیجا چنانچہ 21اکتوبر کو جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوا ،65کے ایوان میں 33ارکان نے عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت کی ۔اس موقع پر جام کمال نے رد عمل دیتے ہوئے کہاکہ میرے مخالفین ووٹنگ کا انتظار کریں ناراض گروپ کے کئی ارکان تحریک عدم اعتماد کی حمایت نہیں کریں گے۔جام کے مشیران بیان دیتے رہے کہ جام کمال 5سال پورے کریں گے۔اس دوران پی ٹی آئی کے ممبر اسمبلی سردار یار محمد رند امریکہ کی خوش گوار فضاؤں کو چھوڑ کر بھاگے بھاگے کوئٹہ آئے کہ شاید وزیراعلیٰ کی لاٹری نکل آئے مگر انہیں مایوسی ہوئی۔ بالآخر جام کمال خان نے تحریک عدم اعتماد سے 24گھنٹے قبل یعنی 24اکتوبر کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دیدیا۔
28اکتوبر کو میر قدوس بزنجو بلا مقابلہ وزیراعلیٰ منتخب ہوئے اپوزیشن نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ قدوس بزنجو وزیراعلیٰ منتخب ہونے پر حسب معمول وہی پرانا رٹا لگا یا جو سابق وزرائے علیٰ اپنے منتخب ہونے پر لگاتے رہے ہیں مثلاً سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ ناراض بلوچوں کو قومی دائرے میں لائیں گے عوام کو ریلیف ملے گا۔ بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ کریں گے بلوچستان میں امن قائم کرکے بلوچستان میں خوشحالی لائیں گے وغیرہ وغیرہ۔
اس سارے تناظر پر نظر رکھنے والوں کو یہ سوال چبھ رہا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کس کے کہنے پر دو مرتبہ باپ کے ناراض ارکان کو منانے کوئٹہ آئے اور ناراض ارکان کو جام کمال کے ساتھ مفاہمت سے کون روک رہا تھا۔ او رجام کمال کس کی آشیر باد سے مستعفی ہونے سے انکار کرتا رہا۔ پس پردہ قوتیں جو ریاستی نظام کو چلا رہے ہیں ان کی حمایت کس کے پاس تھی ۔بادی النظر میں انہی قوتوں نے ثناء اللہ زہری کو اقبال نامی غیر معروف بیورو کریٹ کے ذریعے تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے ایک دن پہلے وزارت اعلیٰ کے عہدے سے مستعفی پر مجبور کیا اور ان کی جگہ (ق) لیگ کے قدوس بزنجو کو وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز کیا۔
جام کمال کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ در اصل یہ سارا کھیل بلوچستان میں قوم پرستی کی سیاست کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے کھیلا جارہا ہے۔ 2023 کے آنے والے انتخابات میں ایک مرتبہ پھر قوم پرستوں کو شکست و ریخت سے دوچار کرنے کا منصوبہ ہے۔