ناہمواربھیڑ۔۔۔۔۔۔سڑک پر۔۔۔۔اورلوگوںکے دماغوںمیں،خیال اورواہموںکی صورت میں،زندگی کی علامت کے طورپرچلتارہتاہے۔۔۔بھیڑاَن دیکھے قانون کاپابندہوتاہے اُسے محض صوت سے نسبت ہے ٹھوس وجوداورحکم دینے والا مجسم فردجسے شناخت بھی حاصل ہو،بھیڑکوفوری نوعیت کاکوئی حکم نہیںدے سکتا۔۔۔بھیڑیااژدہام ۔۔۔۔متواتردن کی روشنی اوررات کے دورانیے میں۔۔۔لیکن سڑک پریہ ناہمواربھیڑعشاء کے اذان اورنمازکے بعداورپھیلتا جاتاہے مگرجوان ہوتی رات کی کُھلتی زلفوںکی خوشبوئیںاس کے تنفس پرحملہ آورہوجاتی ہیںاوریہ بھیڑ۔۔۔جس میںموٹرکاریںزیادہ دلآویزوجودرکھتی ہیںآہستہ آہستہ لاپتہ ہوتی جاتی ہیںجیسے خوبصورت بلوچ نوجوان خوابوںکے ریوڑوںکوہانکتے ہانکتے سرسبزچراگاہوںکے سرابوںمیںاترکردن کے ستارے بن جاتے ہیں۔۔۔اورخوابوںکے ریوڑواپس بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے الائوجلائے خوب صورت بلوچ نوجوانوںکے زانوںپرسرٹیک کراپنے گدڑیاکاانتظارکرتی ہیں۔۔۔رات پھرحملہ آورہوتی ہے ۔فصیح اورسہیل سراب میںاترگئے۔
(جب سیاست بے شناخت یامصنوعی شناخت تخلیق کی گئی گروہ کے وجودکامحافظ اوردست نگربن جائے یہ منظرنامہ پھیلتارہتاہے )۔
نیشنل عوامی پارٹی ،بداعتمادی کے طویل اورخون ریزوقفوںکے بعدامیدکی ایک پتلی سی روشنی آنکھوںمیںاتررہی تھی مگراسے دبیزمنافقت میںچھپادیاگیا۔یاشایدبجھادیاگیا۔
قوم پرستوںنے ایڑی چوٹی اورصدیوںکے سنبھالے عزت کی پوٹلی کوگروی رکھ کر،اقتداربانٹنے والے ،مُرغ ہما،کے سامنے منتیںکرکے آواران کے گوہرنایاب کے سرپروزارت اعلیٰ کاتاج رکھوادیا۔۔۔۔۔لیکن خوابوںکے ریوڑہانکنے والے خوب صورت اورنوجوان گدڑیاغائب ہوتے رہے اورسراب انہیںنگلتارہا۔۔۔۔سراب ایساوجودجولاوجودہے جس طرح خوف ایساوجودہے جولاوجودہے جسے خاندان،گھراوراپنی ذات سے وابستہ جذبات اورخواہشیں اوران کی حفاظت اورروشن مستقبل دلانے کی جدوجہداسپیس عطاکرتی ہے ۔یاایسادائرہ جسے ہاتھ کی چارانگلیوںسے بنایاجاتاہے اورجسے ہم اپنی کائنات کانام دے دیتے ہیں۔اوربھول جاتے ہیںکہ باہرگلی میںدائرہ پھیلتاجاتاہے جسے معاشرہ یاقوم کہاجاتاہے ۔
تربت پریس کلب کے دائیںکان پرنیم کاپیڑاُس دوپہرکویادکرتاہے جب وہ محض چارفٹ کاتھا،خواتین اشک آلودانکھوںکے ساتھ پلے کارڈزتھامے جن پراردواورانگریزی زبانوںمیںبڑے بڑے حروف میں مختصرتحریریںدرج تھیں،نیچی آوازمیںنعرہ بازی کرتے ہوئے متواترآسمان کی جانب دیکھ رہی تھیں۔آسمان میںہیلی کاپٹریںاُڑرہی تھیں ۔جن تک نیچی آوازمیںاٹھتے نعرے نہیںپہنچ پاتے تھے ۔جدیدٹیکنالوجی کے تخلیق تمپ کی جانب محوپروازتھے ۔
سراب پھیلتاجاتاتھا۔اوردائرہ بنانے والے ہاتھ سکڑتے جاتے تھے ۔ایک گھر،اپنی زمین ،کاروبار،بچوںکے پڑھنے کے لئے مہنگی درسگاہیں ڈھونڈنے کے جتن ۔دائرہ اورسکڑتارہتا۔اب توانگلیوںکی پوریںدھندلی دھندلی دکھائی دیتی تھیں۔
سیاست کے صفحے ،سمندراورآسمان میںکافی مماثلت ہے۔غیرمتعلق شخص لکیراورنشان پانہیںدیکھ پاتا۔لیکن جس سیاست سے ہم کئی دہائیوںسے واقف ہیںوہ کانچ کاایک غلیظ سیاہ ٹکڑاہے ۔خون سینچ کراس پرلکیریںڈال دی جاتی ہیںاورایسے زایوںسے خانے بنائے جاتے ہیںجس سے دیکھنے والے زومعنی اشکال دیکھتے ہیں۔ایک خانے میںقوم پرستی لکھ دی جاتی ہے۔سیاہ غلیظ ٹکڑا،برف کی طرح سرداوراس خانے سے زندگی جینے اورغلاظت چاٹنے والے ،انگوٹھے کی پُشت پرنشان زدہوکرروح کی رسیدوصول کرنے والاکارکن سیاہ غلیظ ٹکڑے پراپنے ووٹ کے ساتھ خون کاایک خشک ہوتاقطرہ بن جاتاہے ۔
خون کے قطرے خشک ہوکرکانچ کوسیاہ کرچکے تھے لیکن وہ بھَیڑکارکن کوسبزدکھائی دیتے ہیں۔سیاست کاغذکاصفحہ نہیںکانچ کاٹکڑاہے جسے ایک مخصوص درجہ حرارت پرایک نئے ہیئت میںڈھالاجاسکتاہے۔
بھیڑپھرسے پھیلتاجاتاہے ۔سڑک اس کے گمان میںاس کی گاڑی کے نیچے اِترارہاہے۔اوروہ یقین کرتاہے کہ خیالات اسے ایک مثبت اورمفید وجودبنارہے ہیں۔ اژدہام دھڑکتارہتاہے ۔سراب آنکھیںمیچے دہاڑتااورمنہ سے جھاگ اڑاتاہے ۔دائرہ سکڑتاجاتاہے۔اب آنکھیںدیکھنے سے قاصرہوتی جاتی ہیں۔
تربت پریس کلب کانیم کاپیڑسورج ڈوبتے نیم تاریک گلی میںوکلاء کے چیمبرزکوتکتاہے اورایک بوف کوراُس پرآکربیٹھ جاتاہے کیونکہ رات کانچ کے سیاہ غلیظ ٹکڑے کے مصنوعی قوانین سے ماورافطرت کے صدیوںپرانے آئین پرکاربندہے اوراسے حکم عدولی پرسزاکاخوف ہے۔