پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا مرکز بلوچستان کی ساحلی پٹی سے سندھ کی ساحلی پٹی پر منتقل کرنے کے بعددنیا کی نظریں اس خطے پرلگ گئی ہیں۔ساحلی پٹی کی اہمیت وافادیت میں مزید اضافہ ہوگیاہے۔ دنیا کے سرمایہ کاروں نے گوادر سے کراچی میں سرمایہ کاری کے لئے دوڑیں لگانی شروع کردی ہیں تاہم وفاقی حکومت کے پاس کراچی کے انڈیجینس لوگوں کے معاشی اور سماجی مسائل کے حل کے لئے کوئی پالیسی موجود نہیں ہے۔ معاشی مسائل کے عدم حل کی وجہ سے انڈیجینس لوگوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ کراچی میں انڈیجینس لوگوں میں بے روزگاری اور غربت ایک اہم مسئلہ ہے۔ کراچی میں ساٹھ فیصد رقبے پر وفاقی اداروں کا اختیار ہے۔ جہاں انڈیجینس لوگوں کی حصہ داری آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ اگر سی پیک میں بھی انڈیجینس لوگوں کو حصہ نہیں دیاگیا، انہیں روزگار سمیت دیگر معاملات سے دور رکھاگیا تو سندھ میں امن وامان کی صورتحال مزید ابتر ہوگی۔ ویسے بھی سندھ میں انسرجنسی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سندھ عسکریت پسندی کی جدوجہدکی ایک طویل تاریخ رکھتاہے۔
سندھی مرحوم قوم پرست رہنما جی ایم سید نے سندھودیش کا نعرہ بلند کیا۔ ستر سے اسی کی دہائیوں میں جی ایم سید کی سربراہی میں کھیرتھر پہاڑی سلسلے میں گوریلا کیمپس قائم کئے گئے۔ اسی طرح 1970ء کی دہائی میں الذوالفقار کا قیام عمل میں آیا۔ یہ جماعت سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے صاحبزادوں نے بنائی تھی۔ سرکاری حلقوں نے سندھ میں ماضی کی گوریلا وار کا سہرا بھارت کے سر قراردیتے ہوئے کہاکہ سندھی گوریلے بھارت میں تربیت حاصل کرتے رہے ہیں۔ اس گوریلا وار میں بے شمار لوگ مارے گئے۔ ماضی میں حکومت نے بندوق کے زور پر انسرجنسی کو وقتی طورپر روکنے میں کامیاب ہوگئی تھی تاہم وہ ہمیشہ کے لئے دب نہیں سکی۔
موجودہ دور میں سندھ کے شہری عوام (اردو اسپیکنگ) کی تنظیم ایم کیو ایم کو کالعدم قراردیاگیا جس کی وجہ سے کالعدم ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی جماعت مختلف گروپوں میں تقسیم ہوگئی۔ سوشل میڈیا پر الطاف حسین اور کالعدم جئے سندھ متحدہ محاذ (جسمم) کے سربراہ ڈاکٹر شفیع محمد برفت کے درمیان اتحاد و یکجہتی کی خبریں آرہی ہیں۔ اسی طرح سندھی گوریلا کمانڈر اصغر شاہ کی طاقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ ان تنظیموں پر سرکاری طورپر پابندی کے باوجود وہ سرگرم ہیں۔ آئے روز سندھ میں ریلوے لائن کو دھماکہ سے اڑانااور موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ سندھو دیش ریولوشنری آرمی اور سندھ لبریشن آرمی کی کاروائیاں روز بروز بڑھ رہی ہیں۔دوسری جانب سندھ بھر میں چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بے شمار نوجوان لاپتہ کردیئے گئے ہیں۔ وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کے مطابق سرکاری اداروں نے مشترکہ طور پر سندھ کے شہر قمبر کے گاؤں نور واہ میں ایک سندھی قوم پرست کارکن فقیر نور چانڈیو کے گھر پر چھاپہ مارا، جس میں پاکستانی فورسز نے فقیر نور چانڈیو کے بوڑھے والد گل حسن چانڈیو، والدہ بصریٰ چانڈیو، زوجہ عارفہ چانڈیو، بہن پارس چانڈیو، بیٹی سندھو چانڈیو سمیت گھر کے 12 افراد کوگرفتار کرنے کے بعد اٹھاکر لاپتہ کردیا ہے۔وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کی رہنما سورٹھ لوہار اور سندھ سجاگی فورم کے رہنما سارنگ جویو نیکا کہنا ہے کہ ادارے اب سندھ میں بھی بلوچستان جیسا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ بلوچوں کی طرح اب سندھی ماؤں بہنوں کو بھی اٹھایا جا رہا ہے، گزشتہ کئی ہفتوں سے کراچی، قمبر اور نوابشاہ سے درجنوں قوم پرست کارکنان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ہیں اور درجنوں کارکنان کو جبری لاپتا کیاگیا ہے۔ قمبر کے گاؤں گاہی خان چانڈیو سے قوم پرست کارکن عاقب چانڈیو کے تین رشتہ داروں کامران چانڈیو، اویس چانڈیو، عقیل چانڈیو کو بھی گزشہ دنوں جبری لاپتہ کیاگیا۔ نوابشاہ سے قوم پرست کارکن ماجد کیریو اور فقیر حکیم لاکھو کو جبری لاپتہ کیاگیا ہے۔ کراچی سے ساگر سعیدگاڈہی، آکاش سرگانی اور ذاکر سہتو سمیت کئی درجن کارکنوں کو گرفتاری کے بعد لاپتہ کیاگیا ہے۔ جبکہ اس سے پہلے بھی ایوب کاندھڑو، مرتضیٰ جونیجو، انصاف دایو، پٹھان خان زہرانی، امداد شاہ، منیر ابڑو، سرویچ نوحانی، اعجازگاہو، ڈاکٹر فتح محمدکھوسو سمیت 50 سے زائد سندھی کارکن کئی سالوں سے لاپتہ ہیں۔
سندھ محل وقوع اور جغرافیہ طور پر بلوچستان سے مختلف ہے۔ سندھ میں انسرجنسی ایک مضبوط شکل اختیار کرسکتی ہے۔ سندھ کے بے شمار اضلاع کی سرحدیں بھارت سے ملتی ہیں۔ دونوں اطراف میں زمینی اور سمندری حدود ملتے ہیں جن میں کراچی، ٹھٹھہ، بدین، سجاول، تھرپارکر، سانگھڑ سمیت دیگر اضلاع شامل ہیں۔ بدین اور ٹھٹہ اضلاع میں دریائے سندھ کا ڈیلٹا ہے۔ سندھ کا یہ ڈیلٹا دنیا کا ساتواں بڑا ڈیلٹا ہے۔ دریائے سندھ کے سترہ کریکس ہیں۔ جہاں مینگروز کے بڑے بڑے جنگلات ہیں۔ یہ جنگلات بھارت تک چلے جاتے ہیں۔ یہ دلدلی پٹی ہے۔ یہ جنگلات اور دلدل ویت نام کے جنگلات سے مشابہت رکھتے ہیں۔ قدرتی محل وقوع کی وجہ سے امریکہ جیسی سپرپاور کو ویت نام میں منہ کی کھانی پڑی۔ سندھ کے ان جنگلات اور دلدلی علاقوں کو صرف سندھ کے ’’لاڑ‘‘ کے لوگ سمجھتے ہیں۔ بدین اور ٹھٹھہ کی پٹی کو عام زبان میں ’’لاڑ‘‘ کہا جاتا ہے۔ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعرانہ زبان پر سب سے زیادہ اثر ’’لاڑ‘‘ کے لہجے کا ہے۔ بھٹائی سرکار نے لاڑ کے لوگوں کے بارے میں کچھ یوں کہا:
’’ لاڑ کے لوگ بظاہرایک لاغر اور خاموش سانپ کی مانند نظر آتے ہیں۔ ان کی خاموشی اور لاغر پن دراصل ایک دھوکہ ہے۔ وہ اتنے طاقتور سانپ ہیں کہ اپنے ایک حملے سے ہاتھی کو بھی موت کی نیند سلا سکتے ہیں ‘‘۔
بلوچستان کی انسرجنسی سے زیادہ خطرناک انسرجنسی سندھ کی ہے۔ اگر اس کو روکا نہیں گیا۔ وہ پورے ملک کا معاشی، تجارتی سرگرمیوں کو جام کرسکتی ہے۔ کیونکہ سندھ کا دارالحکومت کراچی ملک کا معاشی حب ہے۔ جہاں سے پورے ملک کا معاشی، تجارتی اور اقتصادی پہیہ چلتا ہے۔ اس شہر میں پاکستان اسٹاک ایکس چینج، اسٹیٹ بینک سمیت دیگر مالیاتی اداروں کے ہیڈ آفسز ہیں۔ فی الحال تو کراچی شہر میں ایک مصنوعی امن و امان کی صورتحال ہے۔ خدشات کے پیش نظر وفاقی حکومت کو سندھ کے عوام کو سی پیک میں ایک معاشی اور آئینی پیکج دینے کی ضرورت ہے۔ خْدارا ،ایسی پالیسی نہ بنائی جائے جس سے سی پیک سندھودیش کی علامت بن جائے۔