|

وقتِ اشاعت :   November 30 – 2021

مولانا ہدایت الرحمن بلوچ آج کل بلوچستان کی سیاست میں خاصی اہمیت حاصل کرچکے ہیں، اس اہمیت کی وجہ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کی قیادت میں گوادر کے شہر میں پے در پے جلسے، جلوس، دھرنے اور مارچ ہیں۔ مولانا کا تعلق پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعت (جماعت اسلامی ) سے ہے۔ماضی میں جماعت اسلامی کو بلوچستان میں وہ پذیرائی نہ مل سکی جو مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کی قیادت میں حالیہ دھرنوں کی وجہ سے ملی ہے۔ اس پذیرائی کی وجہ مولانا کا جماعت اسلامی کی بنیادی پالیسیز اینٹی قوم پرست نظریات سے یکسر مختلف ہوناہے کیونکہ جماعت اسلامی جن نظریات کی روز اول سے نفی کرتی آرہی تھی مولانا نے بلوچستان میں اسی سوچ کو اپناتے ہوئے پارٹی پالیسیز کی سیاست سے ہٹ کر کام کیا اور اس حکمت عملی کا خاطر خواہ فائدہ بھی اٹھا چکے ہیں۔

مولانا کی تقریریں بظاہر ریاستی اداروں پر کھلم کھلا تنقید ہیں گو کہ جماعت اسلامی بھی وقتاً فوقتا ًاداروں پر تنقید کرتی آرہی ہے مگر یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ جماعت اسلامی بلوچستان کے رہنما نے قوم پرست سوچ و نظریات کو بنیاد بنا کر اداروں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے جس کی وجہ سے مولانا کے گرد ہجوم در ہجوم کی صورت میں لوگ جمع ہونے لگے۔ جماعت اسلامی شاید مولانا کی تقاریر و بلوچ ازم کو قبول ہرگز نہ کرتی مگر اب مولانا کو جماعت اسلامی کی اتنی ضرورت نہیں رہی بلکہ مولانا جماعت کی مجبوری بن چکے ہیں جس کی وجہ سے جماعت اسلامی سمجھوتہ کی طرف جاچکی ہے۔

سوال یہ نہیں کہ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کس حد تک کامیاب ہوچکے ہیں اصل سوال تو یہ ہے کہ بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتوں کو مولانا کی ابھرتی شخصیت سے کس حد نقصان پہنچ چکا ہے۔ یہ درست ہے کہ ایک عرصہ سے ایسی دوٹوک اور واضح الفاظ میں بلوچستان کے مسائل پر بولنے والی قیادت کا فقدان نظر آیا ہے۔ یہ فقدان گوادر میں اور بھی زیادہ رہا۔ قیادت کے اس خلا ء کو مولانا نے بڑے احسن انداز سے پْر کردیا ہے۔ یہ بات بھی بجا ہے کہ وقتاً فوقتا ًاختر مینگل کی تلخ و گرج دارآواز اسمبلی فورم سے گونجتی سنائی دی ہے مگر بی این پی کی اجتماعی سیاست گزشتہ تین سوالوں میں سوالیہ نشان بن کر رہ چکی ہے۔سب سے پہلے وفاق میں حکومتی اتحاد کہ جس نے بی این پی کو خاطر خواہ فائدہ پہنچایا۔ جسکے فوراً بعد آرمی چیف کی مدت بڑھانے کے حق میں بی این پی کا ووٹ دینا مزید کنفیوژن کا سبب بنا۔اور اب بی این پی کے حالیہ سیاسی پس منظر پر بات کریں تو بلوچستان میں بی این پی نے باپ پارٹی کے رہنماء موجودہ وزیراعلیٰ قدوس بزنجو کی حمایت کرکے اپنے کارکنان ہی نہیں بلکہ بلوچ قوم پرست نظریات کے حامل ہر فرد کی نظر میں سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ ایسے میں مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کی قیادت کا ابھرنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ المختصر ! قیادت کے فقدان کا مولانا نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور بہت کامیاب بھی رہاہے۔ یہ کہنا بالکل بھی مبالغہ آرائی نہ ہوگی کہ مذہبی نظریات اور بالخصوص جماعت اسلامی کے رہنماء ہونے کے باوجود بلوچستان میں مولانا کی شخصیت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے اور پورے بلوچستان کے عوام کی نظریں مولانا کے احتجاج اور دھرنوں پر ہے۔ مولانا بلوچستان کی سیاست میں ایک قدآور سیاسی شخصیت بن کر ابھرے ہیں جس کے بعد قوم پرست سیاسی جماعتوں کو بہت بڑا چیلنج درپیش ہے۔مگر اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہے !

وہ یہ کہ مولانا اگرچہ سیاسی طورپر بلوچ قوم کی نظر میں اہمیت حاصل کرچکے ہیں جبکہ دوسری طرف قوم پرست سیاسی جماعتوں نے بلوچ عوام کو کافی حد تک مایوس کردیا ہے۔ مگر بلوچستان میں دو گروپ نہیں بلکہ ایک تیسرا گروپ بھی ہے۔ وہ تیسرا گروپ اپنے معاملات سے بخوبی آگاہ ہی نہیں بلکہ اپنے نظریات و سوچ میں مکمل واضح بھی ہے۔ وہ جانتا ہے قوم پرست سیاسی جماعتیں بخوشی یا مجبوراً سمجھوتوں کا شکار ہوجاتی ہیں کیونکہ انہیں سیاست میں زندہ رہنا ہوتا ہے۔ انہیں اپنی پارٹی پالیسیز کے ماتحت چلنا پڑتا ہے۔ جبکہ مولانا کی جدوجہد دراصل حقوق کی جدوجہد نہیں بلکہ مسائل کی جدوجہد ہے۔ مولانا اپنے حساب سے بہتر کام کر رہے ہیں مگر انکی ریلیاں اور دھرنے کہاں اختتام پذیر ہونے ہیں مولانا کی جدوجہد کا آخری و حتمی نتیجہ کیا نکلنا ہے وہ سب کھلی کتاب کی طرح ہے۔ مولانا لاکھ بھی اداروں پر تنقید کریں مگر ادارے بھی یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مولانا کی تنقید کا حتمی نتیجہ کیا نکلنا ہے۔ اور اس حتمی لکیر سے مولانا کبھی بھی آگے نہیں جا سکتے۔ ایک مقام پر آکر مولانا کی جدوجہد خود بخود دم توڑ جائے گی اور مولانا اسے اپنی جدوجہد کی آخری لکیر سمجھتے ہیں۔ یہ تمام تر صورتحال گو کہ ظاہری طورپر اداروں اور ریاست کی ناراضگی کا سبب ہے مگر یہ جہدوجہد درحقیقت کسی بھی موڑ پر پہنچ کر ریاستی موقف کی تقویت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اس لئے تیسرا گروہ مولانا کو زیربحث لانا ہی نہیں چاہتا اور وقتی مسائل کے حل تک پورا بلوچستان مولانا کی حمایت کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ جس کی مخالفت کوئی بھی ذی شعور بلوچ نہیں کرسکتا۔ جبکہ قوم پرست سیاسی جماعتیں سمجھوتے کی نظر ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے عام نظریاتی و سیاسی سنگت مایوس ہوکر پیچھے ہٹ رہا ہے۔ویسے بھی تیسرا گروہ اگر غیر پارلیمانی سیاست کو لے کر سامنے آجاتا ہے اور میدان میں آکر جہدوجہد تیز کرتا ہے تو قوم پرست جماعتیں اور مولانا دونوں کے ہاتھ خالی رہ جائیں گے۔ مگر جو مشکلات انہیں درپیش آنی ہیں وہ مولانا کے لاکھ کامیاب جلسے بھی ہوں مولانا کو ایسی مشکلات درپیش نہیں آسکتیں۔ مولانا کے لئے اداروں کی پالیسی یکسر مختلف ہے اور قوم پرست سیاسی جماعتوں کے لئے الگ جبکہ تیسرے گروپ کیلئے ریاست نے الگ پالیسیز اپنا رکھی ہیں۔ جن میں حد درجے کی مشکلات آرہی ہیں اور آتی رہیں گی۔

فی الحال مولانا ایک انتہائی اہمیت کے حامل قیادت بن چکے ہیں مگر یہ سب ایک حد تک ہے اور وقتی ہے جس کے بعد خاموشی ہی خاموشی ہے۔ کیونکہ مولانا سے اداروں کو کوئی مسئلہ نہیں نہ ہی مولانا اداروں کیلئے کوئی مسئلہ بن سکتا ہے۔ جہاں تک بنیادی مسائل کی بات ہے تو وہ یقینی طورپر پورے بلوچستان کے مسائل ہیں اگر مولانا اسی روش پر چلتا رہا تو کافی اہمیت حاصل کرنے کے امکانات واضح ہیں اور آنے والے الیکشن میں مولانا کی جیت بھی یقینی بن جائے گی۔