معدنی دولت سے مالا مال بلوچستان کے رخشان ڈویژن کو پیاس نے ہلکان کردیا ہے۔انسان توکجا جانور بھی دم توڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ہر طرف پیاس نے ڈیرہ ڈالا ہے۔ لوگ بوند بوند پانی کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ بلوچستان کے ہر ڈویژن میں اپنی نوعیت کی پوٹینشلز موجود ہیں لیکن رخشان ڈویژن نہ صرف بلوچستان کے دیگر ڈویژن سے امیر ترین ہے بلکہ یہ خطہ دنیا کے امیر ترین خطوں میں سے ایک خطہ ہے۔ایک اندازے کے مطابق صرف ریکوڈک کے مقام پر 70 مربع کلومیٹر علاقے میں 12 ملین ٹن تانبے اور 21 ملین اونس سونے کے ذخائر موجود ہیں۔ تانبے کے یہ ذخائر چلی کے مشہور ذخائر سے بھی زیادہ ہیں۔یہاں سونے کے ذخائر کی مالیت 100 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔
ایرانی سرحد سے ملحقہ رخشان ڈویژن کے شہر تفتان سے صرف 40 کلومیٹر کی دوری پر واقع سیندک میں سونا، چاندی اور تانبا نکالنے کا کام گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہے۔ اب تک یہاں سے ڈھائی لاکھ ٹن تانبا اور ہزاروں کلوگرام سونا حاصل کیا جا چکا ہے۔ اور پاکستان نے منافع اور ٹیکسوں کی مد میں 437 ملین ڈالرز کمائے ہیں۔ سیندک پراجیکٹ کے دیگر حصوں میں بلین ڈالرز کے ذخائر موجود ہیں
لیکن بدقسمتی سے یہاں کے باسی پانی کے ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں۔ پورا علاقہ قحط سالی کا شکار ہے۔ قحط سالی کی وجہ سے بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ غذائی قلت بھی پیدا ہوگئی ہے۔ علاقے میں پانی کی سطح کم ہونے سے زراعت کا شعبہ شدید متاثر ہوگیا ہے۔ حکومت کی جانب سے فراہمی آب منصوبوں پر کام شروع نہ کرنے کی وجہ سے رخشان ڈویژن کے چاروں اضلاع نوشکی،خاران،چاغی اور واشک خشک سالی کی لپیٹ میں ہیں۔ رخشان ڈویژن میں 70 سے 80 فیصد لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت اور مال مویشی پر منحصر ہے۔
ضلع خاران بارانی ندی نالوں کا مرکز ہے۔ ضلع کے منظور شدہ چار ڈیمز پر کام آج تک شروع نہ ہوسکا۔ جبکہ یہ چاروں ڈیمز پی ایس ڈی پی کا حصہ ہیں۔ چاروں ڈیمز کوہ راسکو، بڈو، چارکوہ سمیت دیگر مقامات پر بننے تھے۔ ان چار مقامات پر ڈیمز نہ ہونے سے برساتی پانی ضائع ہوجاتاہے۔ یہاں پہاڑی نالے ہیں پہاڑوں پر ہونے والی بارش کا پانی آتا ہے مگر وہ اسٹور نہیں ہوتا۔ان منصوبوں کی تعمیر سے ضلع کی زمین کو سرسبز و شاداب کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ علاقے میں زیر زمین پانی کی سطح گرنے سے زراعت کو نقصان پہنچا ہے جس کی وجہ سے معیشت ،مالیات اور تجارت کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔ زمینیں بنجر ہو چکی ہیں۔ کنوؤں میں پانی ناپید ہوگیا ہے۔
رخشان ڈویژن کے ضلع نوشکی کی دو یونین کونسل ڈاک اور انعام بوستان کے لوگوں کاذریعہ معاش زراعت اورگلہ با نی ہے۔ قحط سالی کی وجہ سے علاقے میں بھوک و افلاس میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ نوشکی میں ہر چار سال بعد قحط کی ایک لہر آتی ہے۔ نوشکی قحط زدہ علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ علاقے میں مختلف امراض پھوٹ چکے ہیں۔ ڈاک اورانعام بوستان ایک ریگستانی علاقہ ہے۔ علاقے میں قحط کی وجہ سے ریگستان نے ایک طوفان کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اور پوری کی پوری آبادی ریت کی زد میں ہے۔
حکومت نوشکی اور دیگر اضلاع میں آبپاشی کے نظام کو بہتر بنانے کے خلاف اقدامات اٹھارہی ہے۔ علاقے کے پانی کو روکنے کے لئے متنازعہ منصوبے پر غور کیا جارہا ہے۔ کوئٹہ شہر کو پانی کی فراہمی کے سلسلے میں زیر غور پانی برج عزیز خان ڈیم کا منصوبہ نوشکی اور دیگر اضلاع کے عوام کے لئے ایٹم بم سے زیادہ مہلک ثابت ہوگا۔ یہ منصوبہ 291 ڈالرز کی لاگت سے بنے گا جو کوئٹہ شہر میں نئی ہاؤسنگ اسکیمز کی آباد کاری کے لئے پانی کا منصوبہ ہے۔ رخشان ڈویژن سمیت نوشکی کی صدیوں پرانی آبادی کا پانی روک کر نئی آنے والی آبادی کو پانی فراہم کرنا کہاں کا انصاف ہے؟
برج عزیز خان ڈیم کی تعمیرسے ضلع نوشکی سمیت چاغی کی لا کھوں ایکٹر اراضی غیرآباد ہوگی اور زیر زمین پا نی کی سطح کم ہو گی اور نوشکی کی تا ریخی جھیل زنگی ناوڑ خشک ہوجائیگی۔یہ ایشیا ء کی خوبصورت ترین جھیلوں میں شمار ہوتی ہے۔
بارانی ندی نالوں کو بند کرکے برج عزیز خان ڈیم تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے۔ یہ بارانی ندی اور نالے پورے علاقوں کو سیراب کرتے ہیں۔ان بارانی ندی نالوں سے یہاں زراعت کے شعبے کو کافی حد تک مدد ملتی ہے۔ زراعت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد ان ندی نالوں کے سہارے اپنی زرعی اراضی کو آباد کرتے ہیں۔
سینیٹ میں دوسری مرتبہ منتخب ہونے والے چیئرمین صادق سنجرانی کا آبائی علاقہ ضلع چاغی ہے۔ دو دفعہ سینیٹ کے چیئرمین منتخب ہونے والے شخص کا آبائی ضلع آج ملک کا پسماندہ ترین ضلع ہے۔ یہاں کے لوگ زندگی کی آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ ان کے لئے دو وقت کی روٹی حاصل کرنا مشکل ہوگیا ہے۔جہاں نہ روزگار، نہ تعلیم، نہ پینے کے لئے صاف پانی کی سہولیات موجود ہیں۔حکومتی رویے کی وجہ سے غریب عوام جسمانی اور اعصابی مسائل سے دوچار ہیں۔ آج بھی کوہ راسکو چیخ رہا ہے۔ اس کی باسیوں کے زخموں پر کوئی مرہم نہیں رکھاگیا۔ اٹھائیس مئی انیس سو اٹھانوے کو کوہ راسکو میں ایٹمی دھماکہ کیاگیا جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ مختلف امراض میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ کوہ راسکو جس کو تاریخ میں کوہ برفین کے نام سے بھی جانا جاتا ہے یہ دوسو پچاس کلومیٹر طویل ایک پہاڑی سلسلہ ہے جوخاران اور چاغی کی سرحدی پٹی پر واقع ہے جہاں بارانی ندی نالوں سے نکلنے والے پانی کو ضیاع سے بچایا جاسکتا ہے۔ بڑے بڑے ڈیمز کے منصوبے بنانے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح واشک ضلع میں پینے کے پانی کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ کنوؤں اور ندی نالوں سے مضر صحت پانی لاتے ہیں۔ موجودہ دور میں بھی لوگ طویل مسافت طے کر کے پانی لاتے ہیں۔ یہاں معاشی حالت کو بہتر کرنے کے لیے زراعت کے شعبے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پانی کی قلت کے باعث یہاں کاشت کی گئی فصلیں متاثر ہورہی ہیں۔ علاقے میں زیر زمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے۔ پالیسی ساز رخشان ڈویژن کی زمین میں دفن معدنیات نکالنے کے لئے پالیساں تو مرتب کرتے ہیں۔ مگر یہاں کے باسیوں کو معاشی و اقتصادی طورپر مستحکم اور قابل بنانے کے لئے کوئی حکمت عملی نہیں بناتے ۔
رخشان کو پیاسا نہ ماریں
وقتِ اشاعت : December 5 – 2021