|

وقتِ اشاعت :   December 5 – 2021

سی پیک دنیا کا واحد عظیم منصوبہ ہے جو پاکستان کے ذریعے چائنا دنیا کو جوڑ رہا ہے پوری دنیا اسی عظیم پراجیکٹ کے تحت ون روڈ ون بیلٹ سے منسلک ہو کر تجارتی اور معاشی سرگرمیوں کا محور بنتا جا رہا ہے۔ گوادر دنیا کا سب سے گہرا پورٹ اور گہرے ساحل سمندر کا عظیم تحفہ ہے جو کہ بحری جہازوں کیلئے انتہائی آئیڈیل ہے یہ گوادر شہر جو پاکستان کو دنیا میں متعارف کرنے والا ساحلی شہر ہے جوکہ سی پیک کے باعث پرفریب ترقی اور آنکھوں کو دھوکہ دینے والی تبدیلی سے فیض حاصل کرنے میں تاحال ناکام ہے۔ گوادر میں ترقی کا شور اور نعرے لگنے کے باعث لوگ اب نام نہاد ترقی سے اکتا رہے ہیں یا یوں کہیں کہ ایسی جھوٹی اور دھوکہ باز ترقی سے گوادر کے شہری بیزار ہو چکے ہیں اس امر کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ گوادر جہاں اب تک ترقی دیوانے کا خواب ثابت ہو رہی ہے۔لیکن گوادر مسلسل پسماندگی کے دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ وہاں گوادر کے شہری جدید سی پیک کے عظیم اور گیم چینجر منصوبے کے باوجود بدحالی ،پسماندگی ،عدم ترقی کے ساتھ ساتھ پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی سہولیات سے بھی محروم چلے آ رہے ہیں۔ اربوں روپے گوادر پورٹ کی ترقی اور سی پیک پر خرچ ہونے کے باوجود گوادر جیسے شہر کے باسی تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں جوکہ گوادر پورٹ کی ترقی پر ایک بد نما داغ اور سوالیہ نشان ہے۔

گوادر سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی کے مولانا ہدایت الرحمن کی جرات اور ہمت کو سلام ہے جو حکمرانوں کی ناانصافیوں کے خلاف مسلسل سراپا احتجاج اور دھرنے دئیے ہوئے ہیں اور یہ احتجاج گوادر یا بلوچستان کی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ بلوچستان کے دیگر اضلاع میں بھی ترقی کا دور دورتک نشان نہیں۔ بلوچستان بھر کے تمام شہروں میں جہاں تعلیم، صحت جیسی بنیادی ضروریات زندگی کی نایابی ،روڈ، صاف پینے کی پانی کی فراہمی و دیگر سہولیات تک میسر نہیں ہیں صوبے کے سرکاری ہسپتالوں میں عدم فراہمی ادویات کے باعث اموات کی شرح پاکستان میں سب سے زیادہ ہے جہاں روڈ انفراسٹرکچر اور سنگل روڈز کے باعث سب سے زیادہ حادثات کے باعث انسانی اموات بھی بلوچستان میں ہو رہے ہیں ۔صوبے میں شعبہ تعلیم ستر کی دہائی سے ہی تنزلی کا شکار ہے پورے بلوچستان میں صرف چار سے پانچ یونیورسٹیاں ہیں۔ پورے صوبے میں تین میڈیکل کالجز اور دو لاء کالجز ہیں صوبے میں خواتین سیکٹر کیلئے تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن اس کے باوجود بلوچستان میں حکمرانوں سے زیادہ اپوزیشن خواب غفلت میں ہے۔ بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں بلوچستان نیشنل پارٹی مرکز، سینٹ اور صوبے میں ،نیشنل پارٹی سینٹ میں جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی صوبے میں شراکت اقتدار ہونے کے باوجود بلوچستان کے عوام کی ترجمانی کا حق اور صوبے کے ساتھ ناانصافیوں کے ازالے کیلئے کردار ادا کرنے کے بجائے پی ایس ڈی پی اور اپنی ذاتی مفادات کیلئے لڑتے رہتے ہیں۔ بلوچستان کی پسماندگی کے ذمہ دار قوم پرست ،مذہبی و سیاسی جماعتیں اور ان سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں لانے والے سلیکٹرز ہی ہیں۔ کیا کبھی ان طاقتور اداروں نے ان نااہل کرپٹ سیاسی شخصیات کے خلاف کوئی ایکشن لینے کی ہمت کی ہے؟ قانون تو طاقتور کیلئے مکڑی کا جالا اور غریب کیلئے پھانسی کا پھندا ہے ۔

تاہم مولانا ہدایت الرحمن جوکہ جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکریٹری ہیں وہ گوادر میں عوامی تحریک اور گوادر کو حق دو تحریک کی قیادت کر رہے ہیں۔ جماعت اسلامی ملک گیر جماعت ہے۔ کیا اس طرح کی تحریک جماعت اسلامی تن تنہا صرف گوادر کی ضلعی قیادت کے ساتھ کوئی خاطرخواہ نتیجہ کامیابی کی صورت میں دے سکتی ہے؟حالانکہ جماعت اسلامی بلوچستان بھر میں تنظیمی نظام رکھنے کے باوجود باقی اضلاع میں کیوں خاموش ہے؟ کیا گوادر کے اور باقی بلوچستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔؟ قوم پرست و مذہبی پارٹیوں سمیت پی پی پی، مسلم لیگ ن و دیگر جماعتیں تو ویسے ہی بلوچستان کے ساتھ وفاق کی ناانصافیوں پر مسلسل چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ ساحل اور وسائل کے محافظ اور بلوچستان اسمبلی میں تقاریر کے ناٹک کرنے والے ثناء بلوچ اور اس کی پارٹی کی خاموشی بلوچستان اور بلوچ قوم سے وفاداری ہے یا پھر صوبے کے عوام کو بدحالی سے دوچار کرنے والی طاقتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں جو سب ساحل اور وسائل ،گوادر پورٹ ،سینڈک اور ریکوڈک کے نام پر سیاسی دوکانداری چمکانے میں مصروف عمل ہیں لیکن گوادر کے باسیوں کو پینے کے پانی کی عدم فراہمی پر اپوزیشن کی خاموشی ایک ہی سکے کے دو رخ کے مترادف ہے۔

افسوس تو اس بات کا ہے کہ گوادر تحریک کی حمایت میں بی این پی کے رکن صوبائی اسمبلی میر حمل کلمتی اب تک خواب خرگوش میں ہیں۔ بلوچستان کے حقوق کے نگہبان وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو اب تک گوادر کے عوام کی دل جمعی یا ان کو سہولیات کی فراہمی کیلئے کیوں خود تشریف نہیں لائے ہیں؟۔ کیا ریاست مدینہ کے وزیر اعظم عمران خان گوادر کے عوام کیلئے پیکیج کا اعلان نہیں کر سکتے؟ کیا ریاست مدینہ کے والی اور خلیفہ بلوچستان گوادر کے شہریوں کو انسان نہیں سمجھتے؟ حقیقی ریاست مدینہ میں دریائے فرات کے کنارے کتا مرنے پر بھی امیر المومنین اپنے آپ کو جواب دہ سمجھتا تھا لیکن بلوچستان سمیت گوادر میں بھوکے پیاسے ہونے پر عمران خان اور عبدالقدوس کی ریاست میں کسی کو کوئی پرواہ تک نہیں؟ عبدالقدوس بزنجو صاحب اب وقت آ گیا ہے کہ گوادر سمیت بلوچستان بھر کے عوام کی ترقی وخوشحالی کیلئے ہنگامی اقدامات کریں، عوام کو صحت ،علاج معالجہ ،تعلیم و تربیت ،باعزت روزگار، صاف پانی کی فراہمی سمیت بنیادی ضروریات زندگی کے سہولیات کی ہنگامی طور پر فراہمی کا آغاز کریں۔ اب عوام باشعور ہو چکے ہیں آئندہ ایسے کرپٹ وزیروں ،مشیروں اور سیاسی نمائندوں کا عوام انڈوں اور گندے ٹماٹروں سے استقبال کریں گے ۔اس وقت آپ کے لانے والے ہمدرد اور سلیکٹرز آپ کے نزدیک ہی نہیں ہونگے جبکہ آخرت میں اللہ کی پکڑ اور بندوں کے حقوق پر ڈاکے ڈالنے کا سخت قدرتی عذاب کا سامنا بھی کرنا ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے بلوچستان کے اہل سیاست صوبے کے حقوق پر لفاظی فائر کرنے کے بجائے عملی اقدامات کریں اور بلوچستان کے تمام قوم پرست و مذہبی جماعتیں صوبے بھر میں گوادر اور بلوچستانیوں کے حقوق کیلئے موثر تحریک کا آغاز کریں تاکہ حکمران اور سلیکٹرز مجبور ہو کر بلوچستان پر متوجہ ہوں اور بلوچستان بھی اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق ترقی کے ثمرات سے مستفید ہو۔ تاہم اس طرح کا ہونا موجودہ حالات میں سوائے خواب کے کچھ نہیں ۔