|

وقتِ اشاعت :   December 7 – 2021

کمشنر و ڈپٹی کمشنر آفس کوئٹہ کے سامنے اور جی پی او چوک میں پولیس ایک بہت بڑی جنگ لڑنے جارہی تھی ،پولیس نوجوان حتیٰ کہ کچھ بزرگ پولیس بھی سر سے پائوں تک حفاظتی تدابیرکے ساتھ مکمل تیار تھے۔سر پر سخت حفاظتی ٹوپی،کندھوں اور بازئوں کو بھی مکمل طور پر دشمن کے وار سے محفوظ رکھا گیاتھا۔چھاتی اور پیٹھ کو بلٹ پروف جیکٹ کے حصار میں لیا گیا تھا،پائوں سے گھٹنوں تک حفاظتی پیڈپہنے ہو ئے موٹے وسخت ڈنڈے اور ساتھ ہی لوہے کے مضبوط پائپ ہاتھوں میں اور دشمن کے شیلنگ و پتھروں سے بچاوٗ کے لیے مضبوط پلاسٹک و شیشہ نمایاں جنگی ہتھیار کو ساتھ رکھا گیا تھا۔مطلب کوئٹہ پولیس ہر طرح کے ہتھیاروں سے لیس تھی۔
کوئٹہ میں سیر و تفریح کی غرض سے آنے والے ایک فیملی میں دو بچے ،ایک بزرگ شخصیت اور خاتون شامل تھے جنکا نزدیک سے گزر ہوا تو پولیس فورس کی جنگی تیاری کو دیکھ کر پریشان اور ان کے ٹی وی میں دکھائے جانے والے کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی ہتھیار و تشدد والی ویڈیو ذہن میں آجاتی ہے۔اور معصوم بچے بزرگ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ نے کہا تھاکہ کوئٹہ جانا ہے اور آپ ہمیں کشمیرلے کرآئے اور اب کافرپولیس والے ہم کو بھی ماریں گے؟۔سوال پر بزرگ پریشا ن ہوگئے، کیونکہ انہوں نے نہ خودکبھی بلوچ اور بلوچستان کو اپنا سمجھا اور نہ بچوں کو بتایا ۔دوسری طرف جب بچے سڑک پر موجود راکھ کے ڈھیر کو دیکھتے ہیں تو پھر سوال کرتے ہیں کہ دادا جان یہاں تو آگ بھی لگائی گئی ہے یہ بھارتی کافر پولیس نے کشمیروں کو آگ میں جلایا ہے۔
پولیس جس جگہ جنگ کی تیاری میں مصروف تھی۔ہر دو فرلانگ پر تمام آئینی و قانون ادارے و ذمہ دار محکموں کی خوبصورت عمارتیں تماشائی کا کرادر ادا کرنے کے لیے تیار۔کمشنر و ڈپٹی کمشنر آفس سیشن و ضلعی کورٹ ایک طرف وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ تو بالمقابل گورنر و سول سیکرٹریٹ ایک طرف آئین ساز بلوچستان اسمبلی تو دوسری طرف آئین کی تشریح وانصاف کا علمبردار بلوچستان ہائیکورٹ۔
بچوں میں سے ایک نے ہمت کی اور گاڑی سے اترا اور پولیس والے سے جنگ کی نوعیت وہاں خوف و ہراس پھیلانے کی وجہ پوچھی تو ایک پولیس جنگجو نے کہا کہ ینگ ڈاکٹرز احتجاج کے لیے آرہے ہیں۔اس لیے ہم ان سے ٹمنے کوتیار ہیں۔بچے نے معصومیت سے کہا کہ ڈاکٹر تو مسیحا ہوتے ہیں آپ کشمیر کے ڈاکٹرز کو مارتے ہو؟ تو پولیس جوان نے سخت لہجے میں پوچھا کیا مطلب کشمیری ڈاکٹرز اور کہاکہ یہ کشمیر نہیں کوئٹہ کے ڈاکٹرز ہیں ۔تو بچے کے اوسان خطا ہوئے اور پھر پوچھا کہ کوئٹہ بلوچستان پاکستان کا حصہ نہیں ہے کیا؟ تو پولیس نے کہا کوئٹہ بلوچستان بھی اس ملک کا حصہ ہیں تو بچہ کچھ دیر کیلیے مکمل طور پر مفلوج ہوا ،پھر سنبھلا اور پوچھا تو ٹی وی والے نہیں دکھا رہے ہیں اگر کشمیر میں ظلم ہوتا ہے تو ہمارے ٹی وی میں آتا ہے اب یہاں کوئی کیمرے والا نہیں؟ تو پولیس والے نے کہا کہ کوئٹہ اور بلوچستان کو ٹی وی میں نہیں دکھایا جاتا ہے۔بچہ سٹپٹا گیا اور سوچ میں ڈوبا اور اپنی گاڑی کے بجائے پریس کلب جانے لگا کہ شکایت کریں کہ یہاں کے عوام کے ساتھ ظلم ہورہا ہے اور صحافی کیوں خاموش ہے۔جیسے ہی پریس کلب والے سڑک کے لیے مڑتا ہے تو اسے ایک کیمپ نظر آتا ہے اور اس میں بہت سی تصاویر لگی ہوتی ہیں۔ بچہ تذبذب کی حالت میں کیمپ کے اندرجاتا ہے تو ایک بزرگ اور چند خواتین و حضرات بیٹھے ہوئے تھے۔ان کو سلام کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ماما آپ نمائش میں تصویریں صاف والی لگاتے؟توماما درد بھرامسکراکرکہتاہے کہ بیٹا یہ یہاں کوئی نمائش نہیں ہورہا۔بچہ سوال کرتا ہے پھر یہ نئی اور پرانی تصویریں کیوں موجود ہیں اور آپ لوگ کون ہو؟ کیمپ میں ایک لڑکی جو کالج کی طالبہ ہے ماما سے کہتی ہے لگتا ہے بچہ یہاں کا نہیں ورنہ بلوچستان کے بچوں کو بھی ان تصاویر کا پتہ ہے،بچہ فوراَ خود ہی جواب دیتا ہے کہ وہ گوجرانوالہ کا ہے ۔ماماکہتا ہے بچہ یہ تصویریں اس لیے یہاں رکھی گئی ہیں کیونکہ ان ساروں کوماورائے آئین گرفتار کرکے لاپتہ کیا گیا ہے ،ہم ان کی بازیابی کیلیے استدعا کررہے ہیں۔بچہ حیرانگی میں مبتلاہوکر کہتا ہے کہ لاپتہ مطلب آپ لوگوں کو نہیں معلوم کہ آپ کے پیارے کہاں ہیں۔اسی اثناء میں بچے کی نظر ایک بزرگ خاتون پر پڑتی ہے جو چپ چاپ بیٹھی ہوئی تھی اور اس کا چہرہ مکمل مرجایا ہواتھااور انکی آنکھوں کے آنسو ختم ہوگئے تھے۔ماما جواب دیتا ہے کہ نہیں ہمیں معلوم نہیںکہ وہ کہاں ہیں ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ اگر انہوں نے کوئی جرم کیا ہے تو ان کو عدالت میں پیش کرکے سزا دولیکن طاقتورلوگ ہماری فریاد نہیں سنتے۔بچے سے مزید ان کا کرب اور دکھ برداشت نہیں ہوتا اور وہ آگے بڑھتا ہے۔چند قدم آگے اسے عجیب منظر دکھائی دیتاہے کہ قانون نافذ کرنے والے اہلکار لڑکے اور لڑکیوں پر تشدد کررہے ہیں ۔بچہ ادھر اُدھر نظریں دوڑاتا ہے تو اس کو پریس کلب کی عمارت نظرآتی ہے،پریس کلب کے دروازے پر موجود ایک صحافی سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہورہا ہے اور کیوں ان لڑکوں اور لڑکیوں پر تشدد کی جارہی ہے؟صحافی کہتا ہے کہ کالج کے طلباء ہیں اور اپنے کالج میں میرٹ کی خلاف ورزی کے خلاف احتجاج کرنے آئے تھے۔بچہ کہتا ہے کہ یہ تو اچھی بات ہے پھر کیوںوردی والے ان کو مار رہے ہیں اور آپ کے کیمرے والے اور دیگر صحافی کہاں ہیں تاکہ اس ظلم کو میڈیامیں دکھایا جائے؟:صحافی کہتا ہے کہ ہمیں اجازت نہیں کہ ہم بلوچستان کے مسئلوں کو میڈیا میں لائیں اگر ہم ایسا کرنے کی کوشش کرینگے تو ہمیں بھی لاپتہ یا قتل کیا جائے گا۔ـــ؛ااور اس حکم کو نہ ماننے کی پاداش میں ہمارے بہت سارے ساتھی اپنی زندگی کھو چکے ہیں۔ بچہ مایوسی کی حالت میں جانے لگا تو اس کو ہوٹل کی بڑی سی (ایل ای ڈی)کی اسکرین میں نظر آیا کہ چیف جسٹس نے رہائشی ٹاور گرانے کا حکم دیا ہے اور ساتھ ہی دوسری خبر تھی کہ چیف جسٹس پاگل خانہ کا دورہ کرنے کیلیے روانہ۔
بچہ جب اپنی گاڑی تک پہنچا تو دادا نے پریشانی میں کہا کہ کہاں گئے تھے تو بچے نے کہا کہ اصل کشمیر دیکھنے گیا تھا تو دادا نے کہاکیا مطلب؟ تو کہا کہ آپ لوگوں کہتے رہے کہ کشمیرمیں ظلم ہوتا ہے تو مجھے بلوچستان میں کشمیر ملا ۔