ملک میں بحرانات کا سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا، آئے روز ایک بُری خبر عوام کے لیے ہوتی ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی اس طرح کی خبریں شہ سرخیوں کی زینت بن ہی جاتی ہیں کیونکہ گورننس جب بہتر نہیں ہوگا اور بحرانات پر قابوپانے کیلئے ٹھوس حکمت عملی واضح نظر نہیںآئے گی تو یقینا حکومتی کارکردگی پر سوالات ضرور اٹھائے جائینگے جس پر توجہ دینے کے حوالے سے بارہا کہاگیا مگر افسوس کہ اس پر توجہ دی جائے سنی کو اَن سنی کرکے یہ تسلیاں دی جارہی ہیں کہ صرف چھ مہینے عوام کو برداشت کرنا پڑے گا، گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے اس کے بعد ملک سے مہنگائی کا خاتمہ ضرور ہوگا لیکن صاف نظر آرہا ہے کہ مہنگائی کے خاتمے کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے ۔
یہ ضرور سامنے آرہا ہے کہ عوام سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیںکہ وہ کس طرح سے گزربسر کریں اب تو جان بچانے کے بھی لالے پڑنے لگے ہیں ،زندگی بچانے والی ادویات کی قیمتوں میںاضافے کی گھنٹی بجنے والی ہے عوام کس در پر جائیں کہاں فریاد کریں، کون سنے گا۔ بہرحال اب عوام مہنگی ادویات خریدنے کے لیے پہلے سے ہی تیار رہے کیونکہ پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکومت نے خام مال پر سیلز ٹیکس لاگو کیا تو ادویات کی قیمتیں بڑھانا پڑیں گی۔یہ انتباہ پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین قاضی محمد منصور دلاور نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔قاضی محمد منصور دلاور نے کہا کہ فارماسیوٹیکل میں 90 فیصد لوکل پروڈکشن ہو رہی ہے لیکن 90 فیصد سے زائد خام مال درآمد کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ خام مال صرف 10 فیصد یہاں پروڈیوس ہو رہا ہے۔
چیئرمین پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ادویات اور خام مال پر سیلز ٹیکس لگایا جا رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر 17 فیصد سیلز ٹیکس لاگو ہو گا تو ہمیں ادویات کی قیمتوں کو بڑھانا پڑھے گا۔انہوں نے اس ضمن میں حکومت سے اپیل کی کہ ہمارے خام مال پر ٹیکس نہ لگایا جائے وگرنہ ٹیکس لگنے سے نہ صرف ادویات مہنگی ہوں گی بلکہ ان کی قلت کا بھی خدشہ ہے۔چیئرمین پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن قاضی محمد منصور دلاور نے اس سلسلے میں تجویز پیش کی کہ حکومت خام مال پر ٹیکس لگانے کی بجائے مسئلے کا حل اس طرح نکالے کہ نہ حکومت پر بوجھ پڑے اور نہ ہی ہمیں بوجھ اٹھانا پڑے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ پورے ریجن میں ادویات کی قیمتیں سب سے کم پاکستان میں ہیںجبکہ یہ بھی دعویٰ کیاگیا کہ گزشتہ 15 سالوں سے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔
قاضی محمد منصور دلاورکاکہناتھاکہ قیام پاکستان کے وقت 90 فیصد انٹرنیشنل مینو فیکچرنگ تھی جب کہ اس وقت 71 فیصد کمپنیاں لوکل مینو فیکچرنگ کر رہی ہیں۔اب حکومت سے جو ریلیف فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن مانگ رہی ہے شاید مشکل لگتا ہے کیونکہ اب تک کے ہونے والے اقدامات سے یہی نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ سارا بوجھ عوام پر لادھا گیا ہے اور اب بھی یہی ہوگا اور ساری وصولی عوام سے کی جائے گی ۔ بدقسمتی سے ہر وقت یہ تنقید کی جاتی رہی ہے کہ ٹیکس نہ دینے کی وجہ سے معیشت کاحال برا ہوگیا ہے حالانکہ تمام تر ٹیکس کا بوجھ عوام پر لادھ دیا گیا ہے جبکہ بااثر شخصیات کی بڑی تعدادٹیکس نادہندہ ہے کیونکہ خود ان کے گوشوارے اور ٹیکس دینے کے ڈاکومنٹس گواہی دیتے ہیں۔ خدارا اب عوام کا مزید جینا حرام نہ کیاجائے کہ وہ اپنے علاج معالجے سے بھی رہ جائیں ،کھانے سے تورہ گئے اب زندگی بچانے کے لیے بھی ترستے رہ جائینگے۔