شیخ سعدی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب گلستان میں ایک دلچسپ و چشم کشا قصہ نقل فرمایا ہے جو ایک بادشاہ کے اولاد اور ان کے شہزادوں سے متعلق ہے ۔اس بادشاہ کے متعدد اولاد نرینہ ہیں جو قد آور ،خوبرو اور تنو مند ہیں مگر ان میں ایک بچہ کو تاہ قد اور بقیہ کے نسبت بد صورت ہے نیز چالاک اور بظاہر ہوشیار نہیں ہے اس لیے بادشاہ کا اس کی طرف کوئی التفات نہیں تھا اور بادشاہ زادوں میں اس کی حالت وحیثیت ایک عضو معطل کی طرح ہے۔ شاہی محل اور بادشاہ کی نظر میں اس کی کوئی وقعت نہیں ہے جبکہ دیگر شاہزادگان نازونعم میں پل رہے ہیں بڑھ رہے ہیں اور ہر طرح کے وسائل عشرت سے مالا مال ہیں ۔
قصہ مختصر اس کو تاہ قد اور بد صورت شاہزادے نے ایک دن اپنے والد کو چند ایک عمدہ مثال دے کر سمجھانے کی کوشش کی تاکہ ان کے پدر محترم ان کو نظر انداز اور تحقیر کرنا چھوڑ دے ۔کوتاہ قد شاہزادہ نے کوہ طور کی مثال پیش کی کہ وہ بلند و بالا پہاڑ نہ ہوتے ہوئے بھی مہبط وحی قرار پایا ہے اور بکرے اپنے چھوٹے قدکے باوجود حلال و پاک ہے اور ہاتھی بھاری بھر کم جسامت کے ساتھ حرام ہے ۔دل آزردہ شہزادہ کی ان منطقی باتوں کا تو کوئی اثر نہ ہو ا۔ مگر ایک حادثہ نے بادشاہ کے صاحبزادوں میں کون کتنا پانی میں ہے بات صاف کردی۔ بادشاہ سلامت کے ایک نا سلامت پڑوسی کی عداوت اور رقابت کل وقتی طورپر بر ملا تھی ایک دن مخالف پڑوسی نے بادشاہ اور اس کے لشکر کو غفلت کی حالت میں اپنے گرفت میں لے لی ،گھمسان کی لڑائی ہوئی حملہ آور زیادہ منظم اور بہتر دفاعی اور سلاحتی حالت میں تھے، اب عین خطرات کے عروج پر بادشاہ سلامت کے کوتاہ قد اور بد صورت شہزادہ شاہین بن کر دشمن پر حملہ آور ہوا اور نہایت دلیری اور فدا کاری کیساتھ طوفانی یلغار کرتے ہوئے دشمن کے صفوں میں تہلکہ اور تباہی پھیلاتے ہوئے کشتوں کے پشتے لگاتے رہے، بادشاہ کے لشکر میں ہمت بڑھ گئی اور وہ بھی کوتاہ قد شہزادے کی قیادت میں لڑتے ہوئے آگے بڑھے اور آناً فاناً حملہ آور دشمن کے صف اکڑ گئے اور باقی لشکر نے جان بچانا عافیت جانی اور میدان خالی چھوڑ کر راہ فرار اختیار کر گئے۔ کوتاہ قد شہزادہ دوران جنگ رجزیہ شعر پڑھتا اور کہتا ’’ آن نہ من باشم کہ روز جنگ بینی پشت من‘‘ میں وہ نہیں ہوں جو دوران جنگ آپ میرے پشت کو دیکھیں گے میں وہ ہونگا جس کا سر آپ کو خاک و خون میں لت پت ملے گا۔ چنانچہ اس جنگ میں اس شہزادہ کے ہمت مردانہ نے ملک اور بادشاہ کو دشمن کے ہاتھ میں جانے سے بچایا، اس سے بادشاہ سلامت بہت خوش ہو ا اور اس نظر انداز شدہ شہزادہ کو نور نظر بنایا اور آگے چل کر اپنا ولی عہد نامزد کیا ۔
اس قصہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بلوچ قوم میں ملا کا مقام تو ہے ہی اور تعجب خیز بات یہ ہے کہ بلوچ معاشرہ میں ملا بلوچ کی زندگی کے ہر قدم پر اس کا ساتھ دینے والا ساتھی ہے ،بلوچ پیدا ہوتے ہی سب سے پہلے ملا کی آذان سنتا ہے اور پیوند خاک ہونے سے پہلے ملا کی دعا کے ساتھ راہی آخرت ہوتا ہے مگر بلوچ کے پاس ملا وہی کو تاہ قد اور بد صورت شہزادہ سمجھا جاتا ہے اس لیے جب سیاسی حرکات و سکنات کی بات آتی ہے تو بلوچ ملا پر کلیر و کریچ کو ترجیح دیتا ہے ان کے نعروں کی جاذبیت میں بہہ جاتا ہے ۔بلوچ ہر بار کلیر و کریچ کا مشکیزہ اور مٹکہ خالی دیکھ کر بھی پانی کی امید رکھتا ہے یہ طویل داستان ہے اورملا کی نہ مان کر بلوچ اور خطہ کی دیگر اقوام نے کیا پایا اور کیا کھویا۔ملا نے کہا ہندوستان نہ توڑنا، لوگوں نے ملا کی بات نہ مانی اور ہندوستان تقسیم کیا۔ملا نے کہا بلوچستان کی سلطنت کو پاکستان میں ضم نہ کرو، مگر لوگوں نے بلوچستان کو پاکستان میں تحلیل کردیا۔ ملا نے پاکستان بننے کے بعد چیخ چیخ کر بتایا کہ اب پاکستان بنا چکے ہو اس کو مت توڑو ،لوگوں نے توڑ دیا۔ ملا نے کہا پاکستان کی تمام اقوام کو حق دو، آزادی دو، زندگی کے مواقع دو، لوگوں نے انکار کیا۔ ملا نے کہا کہ خدا پرست قوم دوست بنو‘ قوم پرستی کوئی فلسفہ نہیں ہے پرستش صرف خدا کے لئے ہے لوگوں نے اپنے آپ کو قوم پرست بتانا پسند کیا اور بلوچستان کے حقیقی مظلومیت کا رونا رویا مگر نعرہ اور ناراضگی کے اظہار سے آگے نہ بڑھے ۔بلوچستان مظلوم ہے یا نہیں، بلوچستان کی مظلومیت میں کوئی شک نہیں مگر بلی کے گلے کون گھنٹی باندھے۔ بات یہیں پر اٹک گئی جو لوگ اپنے آپ اور عوام کو چوہے سمجھتے رہے وہ کوئی کرشمہ کے منتظر تھے کہ وہ بلی کے گلے گھٹی باندھے اس لیے زمین کے سینے پر خراماں نشنلسٹ نے نہ تو مشرف کا مقابلہ کیا اورنہ اس کے بعد اس کی پالیسیوں کے سامنے کھڑے ہو سکے ۔
بلوچستان کے وسائل پر ڈاکہ تو انضمام سے پہلے پڑ چکا تھا جب سلطان بلوچستان نے قائد اعظم کو سونا چاندی میں تول کر یہ خطیر نقد ینہ پاکستان کو ہدیہ کیا تھا اور اسکے بعد بقول مرحوم پرنس محی الدین کے، اسٹیٹ بینک کے سب سے پہلے سونے کے ذخائر بلوچستان کی ملک تھی۔
مشرف کی پالیسیوں کے خلاف حقیقی میدان میں آنے والا عبقری انسان نے ثابت کردیا کہ قوم کیا ہے اور کسی قوم کے ذمہ دار کو اپنی قوم کے لئے کس حد تک جانا چائیے ۔شہید نواب اکبر خان بگٹی نے نیشنلسٹوں کو ایک بند گلی میں لا کر کھڑا کردیا اور بقول مرحوم عطاء اللہ مینگل بازی نواب اور سرداروں کے ہاتھ سے نکل کر بلوچ عوام کے ہاتھ میں آگئی مگر بلوچستان کے ساحل و وسائل کے لوٹ و مار کا سلسلہ جاری و ساری رہا۔ بلوچستان بلوچوں کے لئے علاقہ غیر بن گیا ،یہاں گوادر کے بارے میں نوبت بہت دور تک چلی گئی، قدم قدم پر یہ بات کہ ایک اجنبی بندوق پر دار تلخ لہجے میں گوادر کے مکین سے پوچھتا ہے کہاں سے آرہے ہو کہاں جارہے ہو ۔پنجگور سے لے کر گوادر تک، گوادر سے کوئٹہ یا کراچی تک متعدد چیک پوسٹوں میں بلوچوں کو چن چن کر ان کے اہل و عیال اور رفقاء سفر کے سامنے تذلیل نے ہر بلوچ کو مشتعل اور مایوس کیا تھا عین اسی موقع پر جب نیشنلسٹ قیادت گھنٹی باندھنے کی ترکیب کیلئے سر جوڑ کر سوچ رہی تھی اور سر توڑ کر بلی کے خلاف غصہ پال رہی تھی تو ملا نے دیکھا کہ مسائل کا حل صرف اور صرف آذان ہے ۔ اس لیے اس درویش نے آذان دے دی اور یہ آذان بھی صورا سرافیل ثابت ہوئی ۔بلوچ عوام کو اندازہ ہو اکہ مولانا ہدایت اللہ کے حی الفلاح کا جواب دینا فلاح ہی ہے۔ دنیا نے دیکھا کہ کس طرح عوام نے ملا کی آواز پر لبیک کہا اور لبیک بھی اس لیے کہا کہ عوام کو پتہ تھا یہ بات ہدایت اللہ کی ذات کی نہیں بلکہ ہر بلوچ کی ہے ،اتنے عرصے دھرنا پر ثابت قدم رہنا امام اور مقتدی دونوں کی اوالعزمی کا عکاس ہے ۔یہ بات عین ہے کہ لوگ موجودہ حالات اور مشکلات سے بیزار ہیں اور یہ بات بھی عیاں ہے کہ دینی لوگ جانباز تو ہیں لیکن فسادی نہیں ہیں ۔تنے دن گزرگئے ایک آدمی کو بھی معمولی خراش تک نہیں آئی ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ ہماری نیشنلسٹ قیادت کا کیا ہوا، ان کے منظر عام پر آنا اور گرم لوہے کو ہتھوڑے نہ مارنے میں کیا رکاوٹ ہے، اب نہیں تو پھر کب ؟حق تو یہی ہے کہ اس وقت یہ تحریک ہر سیاسی اور قوم اور وطن دوست کا نعرہ ہونا چائیے تھا تو پھر کیا ہوا؟ کیا گوادر کے دھرنے میں شامل ہر فرد جماعت اسلامی کا ورکر ہے ؟
شیخ سعدی کا قصہ اور ملا کا بلوچ کے لئے میدان میں آنا اس لیے شبیہ ہیں کہ بلوچ ابھی بھی پدرم سلطان بود کا نعرہ زن ہے اس لیے ظاہر ہوگیا کہ اس کا نظرانداز شہزادہ دینی طبقہ ہی وقت حقیقت میں اس کاکام آیا اور اب تک نیشنلسٹوں کا جو بھی کردار تھا وہ مبہم اور وقتی تھا۔ امید ہے کہ آئندہ بلوچستان بیداری کے ساتھ اجتماعی مفاد کیلئے متفقہ اور مشترکہ قدم اٹھائے گا ۔