|

وقتِ اشاعت :   December 14 – 2021

جیسا کہ نام سے ظاہر ہوتا ہے بلوچستان کے عوام کے دلوں میں ایک ایسی آگ سلگ رہی ہے جس کو نہ بجھایا گیا تو لاوا بن کر پورے خطے کو لپیٹ میں لے سکتا ہے ۔ کتاب کے مصنف عزیز سنگھور جو خود ایک پیشہ ور صحافی ہیں انھوں نے اس کتاب کو ان قلم کاروں کے نام کیا ہے جنھوں نے پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے دوران جام شہادت نوش کیا۔

مصنف نے جہاں ایک طرف بلوچستان کے تاریخی اضلاع کی تاریخ کو قارئین کے سامنے پیش کیا ہے ، وہاں انھوں نے بلوچستان کو درپیش مسائل کو بھی اپنی تحریر کا حصہ بنایا ہے اور ان مسائل کے حل کے لئے اپنی تجاویز بھی پیش کی ہیں جن کو سامنے رکھ کر بلوچستان کے عوام کے سلگتے جذبات کو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے۔ ریاست لسبیلہ کے عروج و زوال کو عزیز سنگھور نے کچھ یوں پیش کیا ہے کہ ہر ریاست تاریخ کو مسخ کر کے اپنی جھوٹی تاریخ متعارف کراتی ہے، تاکہ وہ جھوٹ کی بنیاد پر با

 

 آسانی حکومت کر سکے ۔اس طرح ریاست لسبیلہ کے جدگال حکمرانوں نے ایک جھوٹی تاریخ پر اپنی ریاست قائم کی، اپنے بھائیوں کو دھوکہ دے کر ریاست پر قبضہ کیا، حالانکہ ریاست لسبیلہ کے اصل وارث صرف جاموٹ کی ذیلی شاخ عالیانی نہیں ہیں بلکہ گنگو اور برفت اقتدار میں برابر کے شراکت دار ہیں، ان کے درمیان معائدہ تھا کہ باری باری ریاست کی سربراہی ایک قبیلہ سے دوسرے قبیلے کو منتقل کی جائے گی مگر جاموٹوں نے ایسا نہیں کیا۔

اسی طرح مصنف نے بلوچستان کے مزاحمتی علاقے کوہلو کی تاریخ کے ساتھ ساتھ اپنے پڑھنے والوں کو یہ باور کرایا ہے کہ کوہلو صرف ایک علاقہ نہیں ہے بلکہ مزاحمت کا سرچشمہ ہے۔ آگے چل کر انھوں نے بلوچستان میں ترقی کرتے ہوئے شہر گوادر کی ترقی کو نہیں بلکہ اس کی آزادی کو ختم کر کے پنجرے میں بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے، گوادر بلوچی زبان کے دو الفاظ گوات اور در سے بنا ہے جس کی معنی ہوا کا دروازہ ہے ۔

گزشتہ برس یہ ہوا کا دروازہ ،ہوا کے لیے بند کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا اس سلسلے میں گوادر میں سیف سٹی منصوبے کے تحت باڑ لگانے کام شروع کیا گیا تھا جسے سیاسی جماعتوں اور عوامی احتجاج کے بعد روک دیا گیا تھا۔ اس کتاب میں انھوں نے مستقبل میں گوادر آنے کے لئے چائینیز قونصلیٹ سے ویزا لگانے کے حوالے سے مرحوم بلوچی شاعر انور صاحب خان کے بیان کو کوڈ کیا ہے ۔ عزیز سنگھور نے اپنی کتاب میں خاران کے ریاست سے ضلع بننے کے سفر کو بھی شامل کیا۔ اسی طرح انھوں نے ریاست قلات کے ماضی حال اور مستقبل کو پانچ گمشدہ قبروں کے حوالے مشہور شہر پنجگور، اکبر بگٹی کے ڈیرہ بگٹی اوردشت وصحرا دشت کی تاریخ لکھی ہے۔ مصنف نے ریاست کو یاد دلانے کی کوشش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ریاست عوام کی حفاظت کرتی ہے لوگ ریاست کی اولاد کی طرح ہوتے ہیں ماں اپنی اولاد کا کبھی برا نہیں سوچتی لیکن بلوچستان میں ریاست باپ بن چکا ہے، آج کے بلوچستان میں حکمرانی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی ہے اس کے ہاتھوں میں ایک چھڑی ہے جس سے وہ اپنے بچوں کی خوب دھلائی کر رہا ہے۔ مصنف نے بلوچستان کے ادیبوں، دانشوروں ، مصنفین اور شاعروں کے شہر نوشکی کا نوحہ بھی لکھا ہے کہ نوشکی میں حکومت کی غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے معاشی بحران جنم لے چکا ہے ، نوشکی میں عوامی لاوا پک رہا ہے یہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے ، انھوں نے بلوچی قومی تشخص کے خطرے میں ہونے کی بھی نشاندہی کر دی ہے، بلوچستان کے عوام کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے آئینی راستہ تلاش کیا جا رہا ہے ایک آئینی مسودہ بھی تیار کیا جا رہا ہے اس آئینی مسودے کو ایک چینی فرم اور بلوچستان نیشنل ڈولپمنٹ اتھارٹی کے اشتراک سے تیار کیا جا رہا ہے

جس کو گوادر ماسٹر پلان کا نام دیا گیا ہے ۔مصنف سمجھتے ہیں کہ اس قانون کے تحت بلوچ اپنی سرزمین پر اوغور بن جائیں گے۔ مصنف نے ایٹمی دھماکے کے حوالے سے ضلع چاغی کی چیخیں بھی محسوس کی ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ چاغی کے پہاڑوں، پرندوں اور جانداروں کو سعودی و اماراتی عرب شیخوں کے حوالے کر دیا گیا ہے، وہ یہاں آ کر پرندوں۔ جانوروں کا شکار کر کے ان کی نسل کشی کر رہے ہیں چاغی کے رہنے والے لوگوں کے ساتھ ساتھ یہاں کے پرندے اور جانور بھی چیخ رہے ہیں۔ مصنف نے بلوچستان کے علاوہ کراچی، اور سندھ کے دیگر اضلاع میں بسنے والے بلوچوں کے ساتھ ہونے والی ریاستی زیادتیوں اور مظالم کو بھی اپنی تحریروں میں موضوع بحث بنایا ہے۔ سلگتا لیاری ، آرٹس کونسل کراچی میں آرٹ کی موت، پرتگیز ایمپائر سے ملک ریاض ایمپائر تک، لیاری میں مافیاز کا راج، سندھ پولیس کا بلوچستان عوام کے ساتھ ناروا سلوک، گڈانی میں مزدوروں کو درپیش مسائل شامل ہیں۔ مصنف نے کینیڈا میں قتل کی جانے والی قوم پرست بلوچ خاتون رہنما کریمہ بلوچ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی جدوجہد کی مشعل کو ہر بلوچ کے ہاتھوں میں دیکھا ہے، اور لکھا ہے ہر بلوچ بیٹی کریمہ بلوچ کے قتل پر سوگوار ہے ہر آنکھ اشک بار ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچ معاشرے میں شہادت کو بلند رتبہ حاصل ہے۔ عزیز سنگھور کے نزدیک بلوچ کسی قوم کا نام نہیں ہے بلکہ بلوچ کردار کا نام ہے ، ہر بلوچ اپنے کردار سے اس بات کو ثابت کرتا ہے ۔

مصنف نے منان چوک سے ڈی چوک اسلام آباد لانگ مارچ کے علاوہ ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں 2013 میں کوئٹہ سے اسلام آباد تک پیدل مارچ کا ذکر کیا ہے جس میں دس برس کے بچے علی حیدر بھی موجود تھے جو اپنے والد محمد رمضان کی بازیابی کے لئے پیدل مارچ میں شامل تھا۔ عزیز سنگھور نے کراچی کے مشہور علاقے لیاری میں مافیاز کا ذکر کیا ہے جو ڈرگ مافیا اور بلڈر مافیا کی شکل میں لیاری کے عوام کا استحصال کر رہے ہیں استحصال کا شکار زیادہ تر بلوچ ہو رہے ہیں۔
عزیز سنگھور نے رونامہ آزادی کوئٹہ میں چھپنے والی اپنے 47 کالموں کو کتابی شکل دی ہے ان تمام کالموں کو تواتر سے پڑھنے پر آپ مجبور ہو جائیں گے، انھوں نے بلوچستان کے جن سلگتے مسائل کو شامل کیا ہے اس پر پڑھنے والا محسوس کرے گا جیسا کہ وہ خود سلگ رہا ہے ۔


بلوچستان کی تاریخ، اس کے مسائل اور جغرافیہ میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے کافی عرصہ بعد ایک مستند کتاب شائع ہوئی ہے اس کتاب پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن تحریر کی اختصارپر مجبور ہوں۔ کوئٹہ سے شائع ہونے والا روزنامہ آزادی سمیت علم و ادب پبلشر اور بک سیلر کراچی نے اس کتاب کو شائع کیا ہے جو 230 صفحات پر مشتمل ہے اس کی قیمت 400 روپے ہے ۔یہ کتاب تاریخ اور سیاسی طالب علموں کے رہنمائی کا درجہ رکھتی ہے ۔اس سے ریاست، بلوچستان اور عوام کے درمیان حائل خلیج کی وجوہات کو جاننے میں مدد ملے گی۔