|

وقتِ اشاعت :   December 14 – 2021

ویسے تو ملک کے مختلف صوبوں اور شہروں سے کافی سکینڈلز سامنے آتے رہے ہیں مگر کوئٹہ میں ہونے والا یہ سب سے بڑا سکینڈل ہے ۔اس سے قبل بھی بلوچستان یونیورسٹی کا سکینڈل پیش آیامگر افسوس کہ اس معاملے کو دبادیاگیا اور ملوث مجرموں کو قانون کی گرفت سے آزاد کرایا گیا۔
پچھلے دنوں ایک اور دلخراش واقعہ سامنے آیا جو شاید کوئٹہ ہی نہیں پورے ملکی فضا کو افسردہ کردیا ۔کم عمر لڑکیوں پر بد ترین تشدد اور انہیں بے لباس دکھایاگیا ۔یہ ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جسے دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کے اشتعال اور غم وغصے میں اضافہ ہوا اور سوشل میڈیا پر ایک طوفان سا کھڑا ہوگیا۔
ہدایت اللہ خلجی نامی شخص کو کوئٹہ کے قائدآباد پولیس نے گرفتار کرلیا ساتھ ہی پولیس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ملزم ہدایت خلجی سے سینکڑوں لڑکیوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز برآمد کرلی گئیں ہیں ۔ ملزم پچھلے دو سالوں سے اس غیر اخلاقی جرم میں ملوث تھے اب تک سینکڑوں کی تعداد لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کی گئی اور ان کی باقاعدہ ویڈیوز بناتے رہے ان دو سالوں سے ملزم یہ گھناؤنا دھندہ کرتا رہا مگر وہ قانون کی نظروں سے اوجھل رہا۔
بلوچستان میں قبائلی نظام ہے یہاں بلوچ،پشتون،ہزارہ،پنجابی اردو بولنے والے رہتے ہیں اور یہ تمام صدیوں سے یہاں آباد ہیں۔ ہدایت خلجی جوکہ کافی اثرورسوخ والا اور ایک مشہور خاندان سے ان کا تعلق ہے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے اثرورسوخ اور تعلقات کی بناء پر یہ گھنائونا دھندہ کرتارہاہو کیونکہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے جو یہ شخص اپنی طاقت کے بل بوتے پرتنہا کرسکے ؟لوگوں کا ماننا ہے کہ پولیس کی آشیرباد کے بغیر اتنے بڑے پیمانے پر اس قسم کا دھندہ کرنا نا ممکن ہے ۔یہ کسی ایک یا دو لڑکیوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ متاثرہ لڑکیوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے ۔بلوچستان میں آباد بلوچ، پشتون، پنجابی، ہزارہ سب میں اس اسکینڈل کے حوالے سے شدید اشتعال پایا جاتاہے اور اس کی ذمہ دار پولیس کو ٹھہراتے ہیں ؟آئے روز مختلف مکتبہ فکر کے افراد جن میں خواتین بھی شامل ہیں شدید احتجاج کررہے ہیں ان کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ اس واقعہ میںملوث ملزمان کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے چونکہ اس وقت دو متاثرہ لڑکیاں لاپتہ ہیں جن کی بازیابی کیلئے پولیس اور متعلقہ ادارے سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے بھی اس کیس میں اپنی خصوصی دلچسپی ظاہر کی ہے اور پولیس کو اس سلسلے میں خاص ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ صوبائی محکمہ داخلہ کو بھی اس کیس میں متحرک ہونے کا حکم دیا گیاہے۔یہ غالباً سب سے بڑا اسکینڈل ہے جس کو حکومتی سطح پر ہائی لائٹ کیا جارہاہے۔ سوشل میڈیا پر مختلف مکتبہ فکر کے لوگ اس اسکینڈل کا بھرپور مذمت کررہے ہیں۔اس کیس سے پولیس اوربھی زیادہ متحرک ہوگئی ہے ،اس کی یہ کوشش ہے کہ اس کیس پر لوگوں میں پائی جانے والی بے چینی اور اشتعال کو کنٹرول کیا جائے۔ڈی آئی جی فداحسن نے واضح طور پر کہا ہے کہ اس کیس کو باریک بینی سے ہینڈل کیا جارہا ہے اور مزید شواہداکٹھے کئے جائینگے بہت جلد تمام حقائق کو منظر عام پر لایا جائیگا اس کیس میں ملوث ملزمان تک رسائی اولین ترجیح ہے اورجو دو لڑکیاں لاپتہ ہیں انکی لوکیشن کو ٹریس کیاگیا جو کابل میں موجودگی کو ظاہر کررہاہے اس سلسلے میں افغان حکومت سے مرکزی سطح پر رابطہ کیا جارہاہے۔
جس طرح پولیس نے ہدایت خلجی کے ویڈیو اسکینڈل کوبے نقاب کیا اور کررہی ہے اگر پولیس اس قبل بلوچستان یونیورسٹی والا اسکینڈل بے نقاب کرتی اور ملوث ملزمان کو گرفتار یا عدالتوں سے سزائیں دلواتی تو شاید یہ واقع پیش نہ آتا ؟
اب جب تک اس کیس کو منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جائے گا،لوگوں میں پایا جانے والا غم وغصہ کم نہیں ہوگا!