|

وقتِ اشاعت :   December 15 – 2021

عزیز سنگھور کی تحریریں جاندار بھی ہیں اور جانبدار بھی مگر حقائق کی جانبداری اور مظلوموں کے حمایت مں حال ہی ان کی مضامین پر مشتمل ایک کتاب ’’سلگتا بلوچستان ‘‘شائع ہوئی ہے۔ بلوچستان کی حقیقی تصویر اور صورت حال کتاب میں مذکورہ ہے۔ کتاب کی ابتدائی مضامین سے لے کر اشاعت تک اہم اور بنیادی کردار بلوچستان کے مشہور پسندیدہ جریدہ‘‘ روزنامہ آزادی‘‘ کی ہے کہ جس کی لانچنگ پیڈ سے یہ حقائق لانچ ہو کر بلوچستان کی حاکمیت اور حاکم و محکوم کی حالت و حیثیت کو متلاطم کر چکے ہیں ۔
سنگھور صاحب کی کتاب اپنے نام کا بہترین عکاس ہے کتاب کی تقریب رونمائی کراچی پریس کلب میں ہوئی، عین اسی وقت بلوچستان میں آتش فشانوں سے دھواں نکل رہا تھا ایک طرف بیدار اور بیزار بلوچستان کی بیزاری کا کاروان مولانا ہدایت الرحمن کی قیادت میں ستر سالہ ہر طرح کی سامرائی سحر کو توڑ رہا تھا دوسرے طرف اس محفل میں شرکت کرنے کا وعدہ کرنے والے واجہ یوسف مستی خان صاحب بلوچستان سے یکجہتی کے اظہار کے لئے گوادر گئے اور گرفتار ہوگئے تھے اس لیے وہ اس محفل میں شریک نہ ہو سکے تھے جبکہ حکام اور اختیار داروں نے گوادر کو مسائل کے حل کے سلسلہ میں کوئی تسلی بخش اطمینان نہیں دے سکے ہیں ۔
سنگھور صاحب کی کتاب کے نام کی نشانیوں میں سے ایک نشانی بلوچستان میں گمشدہ افراد کی رہائی اور بازیابی کے لئے عرصہ دراز سے تحریک چلانے والے ماما قدیر محفل میں موجود تھے اور ان کی موجودگی کتاب کی موضوعاتی حیثیت کی عملی گواہی تھی۔ ماما قدیر ایک بہت بڑے قافلہ کے ساتھ طویل پیدل سفر کی تایخ کے بانی ہیں جن کے اس طویل اور تھکا دینے والے سفر نے نہ انہیں مایوس کیا اور نہ خار مغیلاں اس کوسفر سے روک سکے ۔ماما قدیر اپنی حیثیت کے مطابق اس مقصد تک پہنچ گئے جس کے بعد بلوچستان کی آواز دنیامیں پھیل گئی اور اہل عالم کو پتہ چلا کہ بلوچستان میں مسائل اور مشکلات ہیں ۔ماما قدیر نے انسانی حقوق سے متعلق نام نہاد عالمی ضمیر پربھی ضرب کاری لگا دی ہے پتہ چلا کہ ماماقدیر اس سال کا سرمائی کیمپ منعقد کرنے کراچی آئے ہیں ۔
’’سلگتے بلوچستانـ ‘‘کی تقریب رونمائی میںموجود ملک کے مشہور اور نامور صحافیوں نے اظہار خیال کیا۔ عزیز سنگھور صاحب کی محنت پر تعمیری تنقید ،تبصرہ اور اظہار خیال کیا ۔ کراچی پریس کلب ملک کے متحرک اور متنوع پریس کلبوں میں ایک نمایاں مقام و شہرت کا مالک ہے ۔موضوع سے متعلق چند حضرات اور خاتون صاحبہ نے بات چیت کی چند جملوں تمام متکلمین کی باتوں کا خلاصہ یہ تھاکہ بلوچستان اور اس کے مسائل سے متعلق یہ کتاب ایک دستاویز ہے کہ جس سے بلوچستان کے بارے میں ہر شعبہ کے بارے میں اجمالی اور بنیادی معلومات موجود ہیں جس کو پڑھنے کے بعد قاری کو اندازہ ہوگا کہ اس ملک میں کیا ہورہا ہے یہاں حاکم کیا کررہے ہیں اوریہاں اس ملک میں پاکستانی ہونے کا راستہ کیوں روکا گیا ہے نیز پاکستان کے حقیقی دوست اور ر وارث کون ہیں اور دشمن کون ؟ ویسے زمانے کی ستم ظریفی بھی نا قابل فراموش ہے پاکستان میں اختیار و اقتدار کو ہاتھ میں لینے والوں نے پہلی فرصت میں پاکستان کے اصلی معماروں کو میدان سے بے دخل کردیا اور پھر یہ ٹولہ نادیدہ قوتوں سے مل کر پاکستان کی تباہی کی بنیاد رکھتے چلے گئے ۔
بلوچستان اپنی زمن وزمانی و مکانی تعارف وحیثیت و شناخت کا ہمیشہ مالک رہا ہے ۔بلوچستان کا ایک بہت بڑا حصہ اور بلوچستان کی بہت بڑی آبادی سندھ و پنجاب کا حصہ ہے اور سندھ و پنجاب کے ان علاقوں جہاں کہیں کوئی بلوچی نشانی ملے گی وہ نشانی ان بلوچوں کی صدائے بازگشت ہے جو ان علاقوں کو فتح کرتے ہوئے آئے اور یہاں کے خاک و ہوا کے گرویدہ ہوکر رہ گئے۔ ان حقائق کو مد نظر رکھ کر دیکھاجائے تو اندازہ ہوگا کہ بلوچ پاکستان کے دو تہائی حصہ کا مالک ہو کر بھی حقیر فقیر ہے ایسے میں یہ امید رکھنا کہ مظالم کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں ہوگی یہ ایک خواب و سراب ہے ۔