|

وقتِ اشاعت :   December 15 – 2021

بلوچستان بانجھ نہیں ہے قومی مزاحمتی تحریک کے حوالے سے یہ ایک زرخیز خطہ ہے بلوچ قومی مزاحمتی تحریک بہت پرانی ہے آج کی بات نہیں ہے۔ گل زمین بلوچستان نے جب بھی پکارا تو اس کے باسیوں نے سر بہ کف بچوں بوڑھوں جوانوں خواتین نے نہ صرف اس آواز پر لبیک کہا بلکہ عملی صورت میں وہ کرکے دکھایا جو ہمیشہ سے تاریخ کے صفحات پر کنندہ ہیں۔

جمہوری جد وجہد ہو یا مسلح جد وجہد بلوچوں نے اپنی ماں دھرتی کا قرض چکانے کے لئے اپنا خون بہایا، سڑک ہو پہاڑ، بلوچوں نے اپنا تاریخی قومی فریضہ ادا کیا ،کسی بھی طرح پیچھے نہیں ہٹے ،ظلم وبربریت ،نا انصافی، قومی و طبقاتی جد وجہد ہو یا بلوچستان کی پاکستان میں جبری الحاق، جمہوری سیاسی جد وجہد ہو یا مسلح مزاحمتی تحریک، بلوچ پیرانہ سال نواب نوروز خان ہوں یا اسی نوے سالہ شیر زال ماں یا چھوٹی بچی یاسمین بلوچ، دھرتی ہمیشہ اپنے کوکھ سے جنم لینے والے ان فرزندوں پر فخر کرتی رہے گی۔

جب بھی جس طرح کی سیاسی جد وجہد ہو بلوچستان کے مظلوم و محکوم عوام اپنا تاریخی کردار ادا کرنے سے کسی طرح بھی غافل نہیں رہے بلکہ ہمیشہ ثابت قدم رہے ڈٹے رہے ایک مضبوط چٹان کی مانند، ظلم ہوتا رہا عزت نفس مجروح ہوتی رہی ،بے توقیری حد سے بڑھ گئی، اپنی ہی سر زمین پر بلوچ بیگانوں اور اجنبیوں کی طرح زندگی بسر کرنے لگے، ہر طرف چھاؤنیاں چیک پوسٹیں قائم ہوگئیں گویا ایک فاتح مفتوح قوم پر راج کرنے آئی ہو ’’کہاں سے آرہے ہو کہاں جا رہے ہو‘‘ کی رعونت آمیز لہجے میں زمینی خداؤں نے اپنی سرزمین پر بلوچ سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے،بلوچستان کا سینہ چیر کر سونا ،چاندی ،کرومائیٹ، زنک، جپسم، سنگ مرمرجیسے قیمتی خزانوں کو بزور بندوق چرا کر لے گئے۔ گھبرو جوانوں کو رات کے اندھیرے اور دن کی روشنی میں اٹھانے کا سلسلہ تا دم تحریر جاری ہے ۔ماؤں کے گود اجھاڑ دئیے گئے ، اسکول ،کالج ،یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے ،ایک خوف طاری ہے۔ اسمبلیوں میں اپنے من پسند پتلے بٹھانے کیلئے جدید طریقہ واردات اپنانا، سمندر میں مچھلیوں کی افزائش نسل روکنے کیلئے ٹرالنگ کو کھلی چھوٹ دینا ،ایران اور بلوچستان بارڈر کو باڑ لگا کر بند کردینا تاکہ بلوچستان کے رہنے والے باسی ایران میں رہنے والے اپنے پیاروں سے نہ مل سکیں۔ بلوچوں کیلئے بارڈر ٹریڈایک واحد ذریعہ معاش تھا یہاں پر بھی ان کے منہ سے نوالہ چھین لیا گیا۔ اپنی سرزمین اپنی دھرتی پر بلوچ ایک ذلت آمیز زندگی گزار رہی ہے ۔

بلوچستان کی پارلیمنٹ بے توقیری ہو کر رہ گئی ہے۔ قرار دادیں ردی کی ٹوکری میں پھینک دی جاتی ہیں بلوچستان کے خزانوں کا سودا بلوچ کی مرضی و منشا کے بغیر بندوق کے زور پر کیا جاتا ہے، سونے ،چاندی ،سوئی گیس کے خزانوں سے لبریز بلوچستان کے باسی دو وقت کی روٹی کے کیلئے ترس رہے ہیں ۔سرکاری نوکریاں اشرافیہ کیلئے بلوچستان کے وفاقی کوٹے پر پنجاب کے لوگ قابض ، سی پیک کے پروجیکٹ پنجاب کے لئے ،گرین بس موٹر ویز فور فائیو لائن سڑکیں پنجاب کے لئے جب کہ کوئٹہ کراچی چمن اندرون بلوچستان کی سڑکوں پر حادثات کی صورت میں موت کا رقص جاری ہے۔ احتجاج کرنا غداری ہے، حقوق مانگنا غداری ہے، جلوس نکالنا غداری ہے، تقریر کرنا غداری، تحریر لکھنا غداری ہے ،ان سب کی سزا موت ہے گم شدگی ہے مسخ شدہ لاشیں ہیں، سسکتے بلکتے بھوک پیاس سے نڈھال بلوچ قوم تنگ آمد بہ جنگ آمد کے دہانے پر تو کھڑی ہے سب کچھ اپنا ہونے کے باوجود کچھ اپنا نہیں ہے ،سانس بھی اپنی مرضی کا نہیں لے سکتے، جو زمینی خداؤں کا حکم ہے بجا لاؤ ورنہ موت کے لئے ،گم شدہ ہونے کیلئے ،مسخ شدہ لاشوں کو کندھا دینے کے لیے یا چلتا پھرتا زندہ لاش بننے کیلئے تیار ہو جاؤ۔ اب مرتے کیا نہ کرتے سیاستدانوں نے قوم کو مایوسی، قنوطیت پسندی کے گرداب میں دھکیل دیا ہے ،سیاسی پارٹیاں اسٹبلشمنٹ کی قدم بوسی اگلی باری کے لئے اپنی رائیں ہموار کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ خود کو محب وطن ،ریاست کا وفادار ،اس مملکت کی بقاء و سلامتی کی قسمیں کھا کھا کے ان کی زبان سوکھ گئی ہے مگر یقین کسی کو نہیں ۔’’وہ‘‘ اپنے لئے گوہرِ نایاب گونگے بہرے اندھے چننے کیلئے آزاد ہے ۔ بلوچستان کے عوام اپنے لئے عوامی نمائندے تک کا انتخاب نہیں کرسکتے ۔ انہی مشکلات ،مسائل ،مصیبتوں سے نجات دلانے کیلئے مولانا ہدایت الرحمان ایک نجات دہندہ کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں ۔ان کا بیانیہ کسی لگی لپٹی کے بغیر صاف ہے ۔مولانا ایک مرد مجاہد کی طرح جوان مردی کے ساتھ اس کھٹن، پر خطر کانٹوں سے بھرے راستے پر گامزن ہیں ۔بلوچستان کے ساتھ ظلم ،زیادتی، ناانصافی، انسانی بنیادی حقوق سے انکاری قوتوں کوللکار رہے ہیں سچ بول رہے ہیں،سچ کہہ رہے ہیں، سچائی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ بلوچستان مکران خصوصاً گوادر کے عوام کا مقدمہ انتہائی خوبصورتی کے ساتھ عام عوام کے سامنے حکمرانوں کے سامنے ملکی و بین الاقوامی میڈیا کے سامنے مدلل انداز میں بیان کررہے ہیں ۔حکومت وقت خواہ صوبائی ہو یا وفاقی، ان کا سامنا کرنے سے کنی کترا رہے ہیں۔ شروع میں چھوٹے چھوٹے جلوس نکال کر اپنا مدعا بیان کیا ،مسائل اجاگر کئے ۔

قافلہ مختصر تھا دیکھتے دیکھتے اس نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی جس کا نام حق دو گوادر رکھا گیا لیکن ان کا اخلاص ،نیک نیتی، کمٹمنٹ ،ثابت قدمی دیکھ کر پورے بلوچستان کے عوام ان کے دلیرانہ موقف کے گرویدہ ہو گئے، جوق در جوق اس حق دو تحریک کے کارواں میں شامل ہوتے گئے تو تحریک کو وسعت دے کر یہ تحریک حق دو گوادر سے’’حق دو بلوچستان کو‘‘میں تبدیل ہوگئی۔ کیا مرد، کیا بچے، کیا بوڑھے ،کیا خواتین، کیا طالب علم، مختلف طبقہ فکر خواہ وہ سیاسی ہوں غیر سیاسی نظریاتی ہوں یا غیر نظریاتی سب مولانا ہدایت الرحمان کی امامت میں باجماعت کھڑے ہیں ۔پاکستانی میڈیا سوشل ایکٹوسٹ سیاسی تجزیہ نگار دانشور یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ وہ حق و سچ کا ساتھ دیں۔ سیاسی تجزیہ نگار دانشور حضرات اپنے نجی محفلوں میں بلوچستان و بلوچ قوم کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کو ایک سقوط سے تعبیر کررہے ہیں غرض یہ کہ مولانا ہدایت الرحمان صاحب نے مختصر عرصے میں بلوچ قومی موقف اور بلوچستان کے مسائل کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ پر امن سیاسی جد وجہد کے ذریعے پوری دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔ پاکستانی میڈیا اس تحریک کوریج دینے کے لیے جان بوجھ کے گریزاں رہی لیکن جب خواتین ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئیں تو تھوڑی توقف کے بعد اس کے ہوش بھی ٹھکانے میں آگئے۔ میڈیا خواب سے بیدار ہوگئی، مولانا سے انٹرویو لینا شروع کر دیا۔ بات ہو رہی تھی خواتین کی، تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی بلوچستان اور بلوچ قوم پر کوئی افتاد آن پڑی تو خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہی ہیں۔ سولہویں صدی میں بی بی بانڈی کی جنگ جویانہ کردار سے کون واقف نہیں ہے جنوں نے اپنے بہادرانہ کردار سے مردوں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ شہید بانک کریمہ بلوچ نے علمی سیاسی شعوری جد وجہد کے ذریعے بلوچ طلبہ طالبات اور بلوچستان کے پسے ہوئے مظلوم و محکوم عوام میں شعور بیدار کرکے اس مٹی کا قرض چکا کر اسی مٹی میں آسودہ خاک ہوئے ،ان کی پیروی کرتے ہوئے ہزاروں بلوچ طلبہ و طالبات سیاسی و علمی شعور سے آراستہ ہو کر ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ۔کراچی کے بلوچ راجی فورم ،بلوچ متحدہ محاذ کے ڈپٹی کنوینئر کلثوم بلوچ، ناز بارکزئی ،رابعہ بلوچ، ڈاکٹر مھرنگ بلوچ، خالدہ قاضی، ہوران بلوچ، مھلب بلوچ، حانی بلوچ، آمنہ بلوچ، عندلیب گچکی، پروین ناز ،ھْما رئیسانی ،زاہدہ رئیسی سمیت سینکڑوں بلوچ خواتین آج بھی برسر پیکار ہیں، جب جہاں بھی ظلم ونا انصافی ہو یہ چیخ اٹھتی ہیں، احتجاج کرتی ہیں جلوس نکالتی ہیں ظالموں و جابروں کو للکار کرتی ہیں، اپنی تقریروں و تحریروں کے ذریعے رائے عامہ ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ عملی صورت میں اپنے بھائیوں، بزرگوں کے دھرنوں میں شرکت کرکے ان کا حوصلہ بڑھاتی ہیں کہ آپ اکیلے نہیں ہیں ہم آپ کے شانہ بشانہ ہیں ۔ماسی زینی ہوں یا کلثوم بلوچ، بانک کریمہ ہو یا چھوٹی بچی یاسمین یہ دھرتی ہمیشہ ان جیسی ہستیوں پر ناز کرتی رہے گی جو اپنے کردار گفتار عمل سے یہ ثابت کرتی ہیں کہ بلوچ خواتین پیدائشی انقلابی و مزاحمتی ہیں یقینا ان خواتین کی جد وجہد ہماری آنے والی نسلوں کیلئے ایک مشعل راہ ہے۔