|

وقتِ اشاعت :   December 19 – 2021

وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے گزشتہ دنوں گوادر کے ہڑتالی کیمپ کا دورہ کر کے ایک معاہدے پر دستخط کرکے ان کی گزشتہ ایک ماہ سے زیادہ کی ہڑتال ختم کرکے اپنے لیے ڈیروں دعائیں لیں ۔دعائیں کیوںنہ ملتیں ایک اعصاب شکن ہڑتالی کیمپ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی جن میں مولانا ہدایت اللہ بلوچ ایک انقلابی رہنما کے طورپر نہ صرف ملک بھر میں بلکہ بیرون ملک بھی نمایاں طورپر جانے اور پہچا نے گئے۔ا عصاب شکن ہڑتال کو ختم کرنے میں عرصہ لگا ،کیوں لگا یہ ایک الگ رام کہانی ہے اس کے پیچھے بڑا مافیا، بڑا ہاتھ شامل تھا ۔یہ ٹرالر مافیا محض چند افراد یا گروہ کا نام نہیں بلکہ ان میں وہ بڑے بڑے ’’مافیاز‘‘ شامل ہیں جن کا ذکر وزیراعظم عمران خان اپنی تقریروں میں اکثر و بیشتر کرتے رہتے ہیں کہ کس طرح ان کا واسطہ بطور وزیراعظم ان ’’مافیاز ‘‘ سے کبھی گندم ‘ کبھی چینی اور کبھی ادویات کی کمی بیشی اور ان کی قیمتوں کو راتوں رات آسمان پر پہنچا کر وزیراعظم کی نیندیں حرام کرنا تک شامل ہے ۔یہاں ٹرالر مافیا میں بھی وہی جاگیردار اور سرمایہ دار خلائی مخلوق‘‘کروڑوں روپے کے بڑے بڑے ٹرالر ز خرید کر انہیں سندھ اور بلوچستان کے ساحل میں نایا ب اور قیمتی مچھلیا پکڑنے کے لئے ڈال رکھا ہے ،بدلے میں ان مافیاز کو چند ایک سرکاری اہلکاروں کو خریدنے کیلئے معمولی سی رقم بطور نذرانہ دینا پڑتی ہے ۔ جو وہ بخوشی دیتے ہیں اس پر گوادر کے مقامی بلوچ ماہی گیر نالاں تھے ان کا روز گار تقریباً تقریباً چھن چکا تھا ،تنگ آمد بہ جنگ آمد انہوںنے اور انکی ’’دلیر خواتین‘‘ نے اپنے بھائیوں اور بیٹوں کی ہڑتال میں شامل ہو کر اس احتجاج کو ملکی سرحدات سے باہر کے ملکوں تک پہنچا کر حکومت خصوصاً ان کرپٹ آفیسران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔وزیراعلیٰ بلوچستان اور چئیرمین سینٹ صادق سنجرانی نے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے حالات کو سنبھالا دیا اور ان کے مطالبات وزیراعظم عمران خان تک پہنچائے اور انہیں حل کرانے کا ذمہ لے کر وزیراعلیٰ بزنجو نے خود گوادر جا کر مرد مجاہد مولانا ہدایت اللہ بلوچ سمیت دیگر ماہی گیروں کے سامنے معاہدے پر دستخط کرکے نہ صرف انہیں مطمئن کیا بلکہ انہوںنے وہاں پر موجود غریب مچھیروں جن میں نادار خواتین اور بچے بھی شامل تھے ان میں چند ہزار روپے تقسیم کیے ۔یہ رقم کوئی لاکھوں اورکروڑوں میں ہرگز نہ تھی کیونکہ انہوںنے اچانک اپنے اسپیشل سیکرٹری سے رقم طلب کرکے موقع محل پر ان غریب خواتین اور بچوں کی حالت زار دیکھ کر جذبہ انسانیت کے تحت معمولی سی رقم کیا تقسیم کی کہ ہمارے چند ایک خود ساختہ دانشوروں اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والوں نے ان پر طنز کے وہ نشتر چلائے کہ ال امان ال حفیظ‘ اس بلاوجہ تنقیدپر مجھ سمیت بلوچستان کا ہرشہری حیران پریشان رہا کہ اس کی وجہ کیا ہے کہ وزیراعلیٰ کو موردالزام ٹھہرایا گیا یقیناً غریبوں کی مدد کرنا وزیراعلیٰ سمیت ہر صاحب حیثیت شخص کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ معاشرے میں غریبوں کی مدد کریں ۔وزیراعظم عمران خان نے غریب مزدوروں کے ٹھہرنے کے لئے قیام گاہیں بنو اکر ان کے کھانے کا انتظام کروا کے ان کو گلے سے لگایا شاید ہی کسی وزیراعظم نے اس طرح کوئی مثبت اقدام کیا ہے ،صحت کارڈ کے ذریعے د س لاکھ اور اس سے زیادہ کی رقم بھی علاج و معالجہ کیلئے مختص کروائی یہ اقدامات تعریف کے قابل ہیں جنہیں ہر شخص سراہتا ہے۔ غریب خواتین ’ طلباء ’ مزدور وزیرعظم کو دعائیں دیتے نظر آتے ہیں ۔ جب وزیراعلیٰ نے معمولی رقم ان غریب مچھیروں میں تقسیم کی تو چند نا عاقبت اندیش افراد نے آسمان سر پر اٹھا کر اپنی کم مائیگی اور کم نسل ہونے کا ثبوت دیا۔ یہ خالصًتا انسانی جذبے کے تحت غریبوں کو رقم دی گئی اگر یہ رقم کسی کو سینیٹر یا وزیر بنوانے کے لئے ہارس ٹریڈنگ کے نام پر دے دی جاتی تو میں بھی ان تنقید کرنے والوں میں شامل ہوجاتا لیکن میں اس تنقید کو شدید نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس کے پیچھے ذاتی مفاد کو دیکھتا ہوا محسوس کرتا ہوں کہ ا س تنقید کا مقصد یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کو بلیک میل کرکے ذاتی فوائد حاصل کیے جائیں۔ اب وزیراعلیٰ کو چائیے کہ وہ ان بلیک میلروں کا ڈٹ کر مقابلہ کرکے ان کے منہ پر کالک مل دیں تاکہ یہ آئندہ اس طرح کی جرات نہ کر سکیں بقول شاعر ’
ہم زندہ قوم کی رہبری کیسے کریں صاحب
کچھ غلامی میں غرق ہیں کچھ دلالی میں غرق
عجب رشتہ رہا کچھ اس طرح اپنوں سے
نہ نفرتوں کی وجہ ملی نہ محبتوں کا صلہ ملا