گوادر میں بلوچستان کو حق دوتحریک کے احتجاجی دھرنے کے اختتام پر وزیر اعلیٰ بلوچستان اسٹیج سے اْترنے کے بعد وہاں پر موجود دھرنا کے شرکاء سے گھل مل گئے۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ بلوچستان نے دھرنا میں شرکت کرنے والی خواتین سے بھی ملاقات کی اور اْن کے سامنے کرسی لگا کر بیٹھ گئے۔ خواتین گوادر کے مسائل کے حوالے سے اْن کو اپنا دکھڑا سناتے ہیں۔ ایک خواتین یہ بھی کہہ رہی تھی کہ جن ماؤں کے بچے غائب ہیں، اس پر خصوصی توجہ دی جائے۔ بچوں کا غم اِن بیچاری ماؤں کو کھا ئے جارہی ہے۔ اِن ماؤں کے جگر گوشوں کو بازیاب کرکے ان کے کلیجے کو ٹھنڈک پہنچائیں۔ ایک خاتون وزیراعلیٰ بلوچستان کی تعریف اس طرح کررہی ہے کہ آپ واحد وزیر ہو جو ہم میں گھل مل رہے ہو۔ ایک خاتون کہہ رہی ہے کہ ہمیں پیسے نہیں چاہیئیں۔ آ پ جیسا خادم پہلے ہم نے کبھی بھی نہیں دیکھا ہے جو اِس طرح ہمارے درمیان بیٹھ کر ہمیں سْن رہا ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان اپنے سامنے بیٹھے ہوئے اِن خواتین کو بڑے غور سے سن بھی رہے ہیں۔ پھر اچانک وزیراعلیٰ بلوچستان اپنے ایک اسٹاف افسر کو اشارہ کرتے ہیں۔ اشارہ ملتے ہی مذکورہ افسر اپنے واسکوٹ کے جیب سے پانچ ہزار کے فریش نوٹ نکال کر وزیراعلیٰ بلوچستان کے ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان بڑی دریادلی کے ساتھ خواتین میں پیسے تقسیم کرتے ہیں۔ اِس ہجوم میں ایک نوجوان پْکار اٹھتا ہے۔ “وہ بلوچستان یونیورسٹی سے لاپتہ طالب علم”۔ “وہ بلوچستان یونیورسٹی سے لاپتہ بلوچ طالب”۔ لیکن وزیراعلیٰ بلوچستان اپنی دریادلی میں اتنے کھو ئے ہوتے ہیں کہ یہ پْکار شاید اْن کے کانوں تک پہنچ ہی نہیں پاتی۔
اِس منظر کی ویڈیو وائرل ہونے کی دیر تھی کہ سوشل میڈ یا پر ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ ہزار منہ اور ہزار باتیں سامنے آرہی ہیں۔ کوئی کہتاہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان اپنے بزرگ خواتین کو داد دے رہے تھے۔ بلوچ کلچر میں داد دینے کا رواج قدیم ہے۔ کوئی یہ الزام لگا رہا ہے کہ پیسے بانٹنے کا عمل دیدہ دانستہ طورپر اپنایا گیا ہے اور اِس سے یہی پیغام دینا مقصود تھا کہ پیسے میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ اور اِس کے سامنے کوئی بھی نظریہ ٹِک نہیں سکتا۔ وغیر ہ وغیرہ۔
اِس منظر میں حق دو تحریک کے روح رواں مولانا ہدایت الرحمن بلوچ بھی کھڑے ہیں۔ اِس منظر کو دیکھ کر ناقدین حق دو تحریک کے سربراہ کی موجودگی کو سخت تنقید کا بھی نشانہ بنارہے ہیں۔لیکن بعد میں مولانا ہدایت الرحمن نے سوشل میڈ یا پر اِس کی وضاحت کرتے ہوئے ناقدین کو جواب دیا کہ “وزیراعلیٰ بلوچستان کا پیسے تقسیم کرنے کا عمل اْن کا ذاتی فعل ہے۔ حق دو تحریک کے کہنے یا ترغیب پر وزیراعلیٰ بلوچستان نے پیسے نہیں بانٹے ہیں”۔
حق دو تحر یک کے دھرنا میں وزیراعلیٰ بلوچستان نے کِس نیت سے پیسے تقسیم کئے ہیں، اِس کا وزیراعلیٰ بلوچستان بہتر طور پر جواب دے سکتے ہیں۔ تاہم اِس حوالے سے بلوچستان حکومت کے ترجمان نے وزیراعلیٰ بلوچستان کے پیسے تقسیم کرنے کے عمل کو کسی بھی پسِ پردہ عزائم سے مبرا قرار دیتے ہوئے اس کو فقط ہمدردی کے جذبے سے تعبیر کیا ۔ حق دو تحریک اور حکومت بلوچستان کے ترجمان کی وضاحت کے باوجود اِس پر گرما گرم بحث جاری ہے۔
لیکن اگر ہم بلوچستان کی سیاسی پارلیمانی تاریخ بالخصوص مکران کے حوالے سے اِس کا تجز یہ کریں تو دولت کی ریل پیل کی روایات گہری ملیں گی۔ اِس حوالے سے یہ مثال پیش کی جاتی ہے کہ پارلیمانی سیاست میں مقام بنانے کے لئے پیسہ ہی واحد ہتھیار ہے۔ یہاں پر ووٹروں کو مائل کرنے کے لئے دولت کی چمک کے علاوہ کوئی بھی طریقہ کارگر نہیں ہوتا کی مثال کو پذیرائی دی جاتی ہے۔ پولنگ اسٹیشن پر ووٹروں کی ٹرانسپورٹیشن، وہاں کھانوں کے دیگوں کی بھرمار اور امیدوا ر کے گھر پر ووٹروں کی دستک کا توڑ پیسہ ہی سمجھا جاتاہے۔ یعنی پیسہ پانی کی طرح بہانا ہی پارلیمانی سیاست میں کامیابی کا بنیادی رہنماء اصول ہے۔ نظریہ، اچھی شہرت، دیانت دار اور ایماندارانہ وصف رکھنے کے باوجود اگر آپ کے پاس پیسہ نہ ہو تو ووٹرز کی توجہ آب و سراب ٹھہر ے گا۔ یعنی بڑی بڑی گاڑیوں اور پرتعیش زندگی گزارنے والے زعماء ہی پارلیمانی سیاست کے سورما قرار دیئے جاتے ہیں اور یہی لوگ اِس دَنگل کو پار کرنے کی باصلاحیت کھلاڑی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ پیسے سے ہی ہوتاہے۔
تھڑے پر پارلیمانی سیاست کی مالاجپنے والا چاہے کتنا ہی نظریاتی، پاک دامن اور دیانت دار ہو اس کو یہ دَنگل سَر کرنے کے لئے جیبوں کو بھرنا ہوگا۔ نظریات، دیانتداری اور امین و صادق کے رہنماء اصولوں پر مبنی لٹریچر سے نہیں بلکہ کرارے کرارے نوٹوں سے جس کی خوشبو ہی ایسی ہے کہ یہ ہرایک کو کھینچ کر آپ کے پاس لاتی ہے۔ پیسے کے بے دریغ استعمال کی رواج پارلیمانی سیاست میں پوری طرح سرایت کرچکی ہے۔ بڑے سے بڑا کامریڈ، سیاسی اور نظریاتی کارکن اور معاشرے کا معتبر بھی اس کا دلدادہ بن کررہ جاتاہے۔
عام ووٹر کا تو قصور نہیں ہے۔ پانچ سال کے بعد ویسے بھی اْن کو کوئی نہیں پوچھتا۔ اس کی لاٹری تو پانچ سال کے بعد نکل آ تی ہے۔ وہ اِس سوچ کو جواز بناکر وقتی فائدے کی طرف اپنی توجہ مر کوز کرتا ہے۔ پانچ سال کے دوران اْس کا سمندر ٹرالرز مافیا کے حوالے ہو۔ اِس کے بیٹے کو ملازمت نہ ملے اور اِس کا چاہے ہر طرح سے استحصال کیا جائے، وہ یہ غم اْس وقت بْھلا دیتاہے۔ لیکن کامریڈ کی معراج سَر کرنے اور نظریات کا داعی بننے والے اور معتبر حلقہ اگر اس بہتی گنگا میں اَشنان کریں تو عام ووٹرز کو لعن طعن کرنا زیادتی ہوگی۔
اِس تحریر کا حاصل مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ، چاہے وہ کامریڈ ہو یا عام ووٹر یا معتبر۔ لیکن اصل مدعا یہ ہے کہ پیسا پھینک تماشا دیکھ ہماری پارلیمانی سیاست کا آزمودہ ہتھیار بن گیا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کے حق دو تحریک کے دھرنا میں پیسے تقسیم کرنے کے عمل سے حق دو تحریک کے سربراہ اور سا تھیوں کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کس نیت سے پیسے بانٹے یہ تو وہی بتا سکتے ہیں کیونکہ نیتوں کا حال اللہ بہتر جانتا ہے۔مگر پیسا پھینک تماشا دیکھ کی پالیسی یہاں کی پارلیمانی سیاست کا موثر ہتھیار بن گیا ہے اور اِس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اِس روش نے ہمارے ہاں سیاسی کارکنوں کی بجائے سیاسی مزدوری کے چلن کو بڑھاوا دیا ہے۔ پیسا پھینک تماشا دیکھ کے فلم میں معتبر بھی سرنگْوں ہوجاتا ہے جس کا مظاہرہ بتد ریج جاری ہے۔ جب تک یہ روش قائم رہے گا تو عوامی نمائندگی مضبوط نہیں ہوگی۔ عوامی نمائندگی کی مضبوطی کے لئے پیسا پھینک تماشا دیکھ کے فلم کا پارلیمانی سیاست کے پردے پر بْری طرح فلاپ ہونا ضروری ہے۔ جب تک یہ فلم پارلیمانی باکس آفس پر کامیاب رہے گی تب تک عوامی نمائندگی سے وابستہ خواب سراب ثابت ہوتے رہینگے۔
حق دو تحریک کی طرح پیسا پھینک تماشا دیکھ کے روش کے خلاف بھی موثر عوامی ذہن سازی کی تحریک ناگزیر بن چکی ہے۔ بصورت دیگر پیسا پھینک تماشا دیکھ والی فلم پارلیمانی سیاست کے پردے پر سْپر ہٹ رہ کر تماش بینوں کو لَلچاتی رہے گی۔