|

وقتِ اشاعت :   December 31 – 2021

ملک میںبلوچستان پسماندگی اور عدم ترقی کے حوالے سے یقینا مشہور و معروف ہے جہاں سالانہ اربوں روپے ترقیاتی منصوبوں یا نام نہاد عوامی ترقی پر خرچ ہوتے آ رہے ہیں تاہم نہ تو عوام ان اربوں روپے کی ترقیاتی منصوبوں سے مستفید ہو رہے ہیں اور نہ ہی بلوچستان کے طول و عرض میں ان اربوں روپے کی مد میں ہونے والی ترقی عام وخاص کو نظر آ رہی ہے۔ بلوچستان ستر سالوں میں جتنی ترقی اور خوشحالی کاغذوں میں کی ہے شاید ہی پاکستان کے کسی دوسرے صوبے نے کی ہو۔

ان ہوائی اور کاغذی منصوبوں سے بلوچستان میں دودھ اور شہید کی نہریں بہہ رہی ہیں لیکن عوام تاحال ان سے بہرہ مند ہونے کیلئے ترس رہے ہیں ۔ ترقی شاید عوام کی نصیب ہی میںنہیں ،بلوچستان کے حکمران وزیر مشیر اور بیوروکریسی ہی حقیقی معنوں میں ترقی کے ثمرات سے احسن انداز میں مستفید ہو رہے ہیں ان کی ترقی دن دگنی رات چگنی والے فارمولے کے تحت ہو رہی ہے اگر صوبے کی ترقی بلوچستان کی اراکین اسمبلی کی طرح ہوتی تو یقینا آج بلوچستان بھی حقیقی ترقی سے ہمکنار ہوتا لیکن افسوس کہ بلوچستان میں میرٹ گورننس اور بیوروکریسی کا نام و نشان تک نہیں یا یوں کہیں کہ وہ برائے نام ہیں نہ کوئی سزا و جزا اور نہ ہی محکمانہ کاروائی، اگر کسی کی بھی برائے نام انکوائری نکلتی ہے تو وہ بھی ایک سیاسی لیڈر کے فون پر ردی کی ٹوکری کی نظر ہو جاتی ہے۔ اسی وجہ سے گورننس برائے نام رہ گئی ہے اب تو سرکاری شعبوں کی تباہی کے بعد بلوچستان سرکار کی نااہلی سے محکمہ زراعت کی غفلت کے باعث صوبے کا گرین بیلٹ تباہی سے دوچار ہوتا جا رہا ہے خریف کی سیزن میں پانی کی کمی کے باعث نصیرآباد میں پچاس فیصد علاقہ زیر کاشت نہیں ہو سکا اب پھر ربیع کی سیزن میں گندم کی کاشت کے بعد کھاد کا مصنوعی بحران پیدا کیا گیا ہے بلیک اور شارٹیج کے نام پر مارکیٹ سے کھاد غائب کرکے بیوپاری مہنگے داموں اور من مانے نرخوں پر فروخت کر رہے ہیں اور وہ بھی بڑے بڑے زمینداروں کو کھاد فراہم کرکے چھوٹے زمینداروں اور کسانوں کا معاشی استحصال شروع کر دیا ہے۔ اگربلوچستان بالخصوص نصیرآباد میں کھاد کی شارٹیج اور بلیک مارکیٹنگ کا سلسلہ جاری رہا تو نصیرآباد میں لاکھوں ایکڑ زیر کاشت گندم تباہی سے دوچار ہو جائے گا

جس سے خوراک کا بہت بڑا بحران جنم لے سکتا ہے لیکن اس کے باوجود نہ تو بلوچستان حکومت نے کھاد کی بلیک مارکیٹنگ اور نہ ہی ڈسٹرکٹ انتظامیہ نے کوئی ایکشن لیا ہے جبکہ محکمہ زراعت نصیرآباد کے ناک کے نیچے زراعت کی تباہی جاری ہونے کے باوجود زرعی آفیسران یا انتظامیہ کی خاموشی دال میں کالا ہونے کے مترادف ہے۔ محکمہ زراعت کی غفلت اور نااہلی کے باعث پہلے ہی نقلی بیجوں کی بدولت زمیندار کروڑوں روپے کے مقروض ہوئے ہیں لیکن زراعت آفیسران کا منہ میٹھا ہونے پر ہر ناجائز اور جعلی چیز جائز اور اصلی ہوتی جا رہی ہے۔ نصیرآباد میں زراعت کو تباہی کے دہانے پر لانے اور سب ٹھیک کا راگ الاپ کر زراعت جیسے اہم شعبے کی بدحالی پر محکمہ زراعت الو کی طرح آنکھیں بند کرکے کسانوں، کاشتکاروں کے معاشی قتل پر بھی مافیاز کی سہولت کاری کا کردار ادا کرکے عوام کو بھوکے مارنے کی سازش میں برابر کا شریک ہے۔ جناب قدوس بزنجو کی نااہل حکومت میں جو جس طرح چاہے کر سکتا ہے اسی وجہ سے بلوچستان میں رہی سہی گورننس کا اب جنازہ نکالا جا رہا ہے لیکن افسوس کہ بلوچستان کا وزیر زراعت ایک کامریڈ اور قوم پرست جماعت کا ہے اسد بلوچ بہترین صلاحیتوں کے مالک اور سینئر پارلیمینٹرین ہے جبکہ اس کے اپنے وزارت میں اس کے ناک کے نیچے زراعت کو تباہ کرکے بلوچستان میں خوراک کا ایک نہ ختم ہونے والا بحران پیدا کیا جا رہا ہے

جس کا غریب صوبے کے مفلوک الحال عوام متحمل نہیں ہو سکتے۔ کیا نصیرآباد اور بلوچستان میں زراعت کی بدحالی کا اہل وزیر زراعت کو پتہ نہیں؟ جب اتنا ہی معلوم نہیں تو پھر آپ عوام اور صوبے کی کس طرح خدمت کر سکتے ہیں؟ جناب اسد بلوچ صاحب انقلاب باتوں سے نہیں بلکہ عملی طور پر اقدامات سے ممکن ہے۔ آپ نے صوبے میں کھاد بحران پر کتنے میٹنگ کئے؟ کیا آپ نے اس بحران پر کبھی آفیسران کی جواب طلبی کی ہے؟ جب کھاد بلوچستان حکومت کسانوں کو سرکاری سبسڈی پر دے رہا ہے تو پھر کھاد کا بحران کیوںکر ہو سکتا ہے یا پھر وہی سرکاری کھاد آفیسران کی ملی بھگت سے بیوپاریوں کو تو نہیں دیا جا رہا؟ اگر نہیں تو پھر سرکاری کھاد کن کو مل رہا ہے یا سرکاری بیج کن کن کو ملا ہے؟ اب وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ قدوس بزنجو اور اسد بلوچ فوری طور پر نصیرآباد ڈویژن کا دورہ کریں اور زراعت کی بحالی اور کھاد کی فراہمی کو یقینی بنائیں تاکہ گندم کی فصل متاثر نہ ہو بصورت دیگر گندم کی کمی سے بلوچستان میں خوارک کا بڑا بحران پیدا ہو سکتا ہے جس کا بلوچستان جیسا پسماندہ اور غریب صوبہ متحمل نہیں ہو سکتا۔