بلوچستان کے وسائل کو لوٹنے کا سلسلہ نہ نیا ہے اور نہ ہی قابل فہم، پاکستان ایک وفاق ہے جس کے استحکام کیلئے ہم آہنگی اور اتفاق کو برقرار رکھا جانا ضروری ہے۔ قوموں کے احساسِ محرومی کو دور کرکے مطمئن اور آسودہ رکھ کر ہی وفاق کو محفوظ و مستحکم بنایا جاسکتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ آئے روزوفاق نت نئے طریقوں سے بلوچستان کے مسائل کولوٹنے کی تگ و دو میں رہتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کے وسائل پران کا حق تسلیم کیا گیا جبکہ جناب وزیر اعظم صاحب ٹو ئٹ کر کے کہتے ہیں کہ میں 40 فیصد صوبے کو فراہم کروں گا اور عبدالقدوس بزنجو اس مہربانی پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ بلوچستان پاکستان کے کل رقبے کا تقریباً 44 فیصد بنتا ہے۔ وزیراعظم رقبے کے لحاظ سے بھی کم مہربانی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
یوں تو بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار کا کلچر دہائیوں سے جاری ہے لیکن اٹھاویں ترمیم کے بعد یہ ایک غیر قانونی عمل قرارپایا یعنی وفاق خود آئین بناکر پھر اسی آئین کی دھجیاں اڑاتا ہے۔ آئین کے آٹیکل 172 کے شق “3” کے مطابق صوبوں میں وسائل کا مساوی حق تسلیم کیا گیا لیکن یہ صرف آئین کی شقوں تک محدود رہا۔ اس کے بعد بھی لوٹ مار میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ 13 مارچ 2014 کو ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے پی پی ایل کمپلکس کے دورے کے موقع خطاب کرتے ہوئے حکام سے پوچھا کہ سوئی کے لوگوں کو گیس کی فراہمی کیوں عمل نہیں لائی جارہی۔ جس پر پی پی ایل کے حکام نے کہا جناب یہاں کے لوگ گیس چوری کرتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں “خود چوری اور پھر سینہ زوری” 6 دہائیوں سے سوئی کی گیس چوری کر رہے ہو۔
اب پورا ملک گروی رکھنے کے بعد حکومت کی نظر ریکوڈک پر ہے۔ جناب وزیراعظم نے ملک کو دیوالیہ بنادیا ہے جس کا کفارہ ریکوڈک کو گروی رکھ کر کرنا چاہتے ہیں۔ جناب وزیر اعظم شاید خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں یاپھر اٹھارویں ترمیم کو رد کرنے کا رواج برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ریکوڈک کو یوں گروی رکھنا غیر آئینی اور اٹھاوریں ترمیم کی خلاف ورزی ہے لیکن اس حکومت نے قانون کی دھجیاں اڑانے میں پچھلی حکومتوں کو بھی پیچھے چھوڑدیا ہے۔ اس صورتحال کے تناظر میں نواب ثناء اللہ زہری نے موقع پر چوکا پر مارتے ہوئے کہا کہ مجھے اس لئے نکالا گیا کہ ریکوڈک خفیہ معاہدے میں مجھے پیسوں کے عوض دستخط کرنے کی آفر پیش کی گئی تھی۔ انکار کے نتیجے میں مجھے اپنی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس بات میں خاصی سچائی پوشیدہ ہے چونکہ خفیہ معاہدے میں اکثر اس طرح کے ڈیل زیرِ بحث آتے ہیں۔ ان کیمرہ ڈیل کی گنجائش نہیں اس لئے حالیہ ریکوڈیک معاہدے کو بھی خفیہ رکھا گیا ہے۔ بلوچستان کی دھرتی ایک بہتی گنگا ہے جس پر تمام حکمرانوں نے ہاتھ صاف کئے ہیں مگر موجودہ حکومت اس میں ڈبکیاں مارنے کا خواہاں ہے۔
بلوچستان کی سیاسی پارٹیاں جس غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہیں اس سے تو یہی معلوم ہوتاہے کہ ڈیل فائنل ہوا ہے۔ اس پر اسمبلی کا اجلاس بلاکر بحث کرنے کی بجائے خفیہ ملاقاتیں بھی اسی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔اپوزیشن کا یوں خاموش رہنا سوالیہ نشان ہے؟ ثناء بلوچ دو چار باتیں کرکے اسمبلی کی رونق بحال کرتے لیکن وہ بھی اب اکثر ملک سے باہر ہوتے ہیں، ان کا سیاسی ساکھ عدم اعتماد کی حمایت کے بعد ختم ہوگیا ہے۔ سیاست میں اکتاہٹ کے شکار بی این مینگل کوئی اقدام کرنے سے تو رہا، ہاں البتہ نیشنل پارٹی ایڑی چوٹی کا زور لگاکر حکومت کے گلے کا پندھا ثابت ہوسکتی ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف صاحب روز اول سے کہہ رہے ہیں کہ “مجھے کیوں نکالا” لیکن آج تک کسی نے انہیںاس سوال کا جواب نہیں دیا ،بلاآخر تھک ہار کر انہوں نے خود اسکی وضاحت کردی۔ اس حکومت نے ایک نیا پنڈروباکس کھول دیا۔ کئی دہائیوں سے دل میں چھپے راز جسے وہ چاہ کر بھی بیان نہیں کرسکتے تھے اس حکومت میں یہ ممکن ہوپایا۔حکومت کی نیا کو ریکوڈک کا سہارا دیکر مستحکم کرنا بھی ممکن نہیں۔ اس چند دنوں کے مہمان حکومت کو جب نواز شریف کی آمد کی بھنک لگی ہے تب سے حکومت خوف کا شکار ہے۔ ریکوڈک کو اس انارکی حکومت سے بچانے کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں کا ایک پیج پر ہونا ضروری ہے۔ ریکوڈک کو امیر باپ کا ایک غریب بیٹا کہا جاسکتا ہے۔
ریکوڈک غیرآئینی ڈیل
وقتِ اشاعت : January 6 – 2022