|

وقتِ اشاعت :   January 9 – 2022

گوادر : حکمران نو بلوچ نو پرابلم کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ گوادر کی ترقی زمینی حقائق کے الٹ ہیں۔ ڈھائی ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود گوادر پانی میں ڈوب گیا۔ بی این پی ساحل وسائل کی نگہبان جماعت ہے۔ ہمارے نزدیک قدوس بزنجو یا اور کوئی مقدس گائے نہیں۔

جام حکومت کی تبدیلی میں کلیدی کردار اداکیا ہے۔ اصولوں پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرینگے۔ ریکودیک کا مقدمہ سابقہ حکومتوں نے مس ہینڈل کیا ہے۔ جام حکومت نے معاملات خفیہ رکھے۔ ان کیمرہ اسمبلی اجلاس کے حوالے سے بی این پی کے بھی تحفظات ہیں۔ ان خیالات کا اظہار بی این پی کے مرکزی رہنماء ایم پی اے ثناء بلوچ نے گوادر پریس کلب میں میٹ دی پریس سے خطاب کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ گوادر کی ترقی کے حوالے سے بڑا شورمچایا گیا ہے لیکن گوادر کی مقامی آبادی میں پسماندگی، محرومی، مایوسی اور بے روزگاری کے اثرات نمایاں ہیں۔

15 اور 20 سالوں کے دوران جو معاشی بدحالی یہاں آئی ہے وہ پہلے نہیں تھی۔ جفاکش ماہی گیروں کو اپنے آبائی روزگار کے چھن جانے کا فکر دامن گیر ہے، ماہی گیروں اور کو شکار پر جانے کے لئے ٹوکن سسٹم نافذ کیا گیا ہے، سمندر ماہی گیروں کے روزگار کا اہم وسیلہ ہے ٹوکن سسٹم نافذ کرکے ان کو روزگار کی اجازت دی جاتی ہے یہ دہرا معیار ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا اسلام آباد، پنجاب اور ملک کے دیگر صوبوں میں کسانوں یا دیگر روزگار کرنے والوں سے بھی یہی سلوک کیا جاتا ہے۔ اگر یہ سلوک ملک میں ہر جگہ موجود ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ٹوکن سسٹم باقی ملک میں کہیں بھی اور کسی بھی جگہ پر موجود نہیں ہم نے کبھی یہ نہیں سنا ہے کہ پنجاب یا دیگر علاقوں میں کسانوں کو کھیت میں ہل چلانے کے لئے ٹوکن سسٹم پر رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ماہی گیروں اور بارڈر پر کام کرنے والے بلوچوں پر ٹوکن کی شرط عائد کرنا مذموم عزائم کا آئینہ دار ہے حکمرانوں نے نو بلوچ نو پرابلم کی پالیسی اختیار کی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ بلوچوں کے گرد گھیرا تنگ کرکے ان کو ان کی سرزمین سے جبری انخلاء پر مجبور کیا جائے گا لیکن بلوچ اپنی سرزمین کبھی بھی نہیں چھوڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایکسپریس وے کے منصوبے میں ماہی گیروں کے روزگار کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے بی این پی نے بھر پور جدو جہد کی اور سردار اخترجان مینگل نے قومی اسمبلی میں یہ مسئلہ اٹھایا جس کے بعد ماہی گیروں کو سمندر تک رسائی کے لئے برج بناکر دیئے گئے ہیں۔

لیکن اب بھی ماہی گیروں کو سمندر تک رسائی کے لئے مشکلات کا سامنا ہے برج کی سائیز ماہی گیروں کی توقع کے برعکس رکھے گئے ہیں اور اب بھی یہ عالم ہے کہ وہاں پر نقل و حمل کی مکمل اجازت نہیں ہے۔ بحثیت صوبائی اسمبلی کے ممبر میں نے بھی ایکسپریس وے کی سائیٹ کا معائنہ کیا لیکن وہاں پر زیادہ دیر کھڑے رہنے اور ماہیگیروں کے خدشات سننے کی اجازت نہیں دی گئی جب ایک پارلیمنٹرین کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے تو تصور کریں کہ عام ماہی گیر اور شہری کن حالات میں یہاں زندگی بسر کررہے ہونگے۔انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں مہلک جالوں کا استعمال ممنوع قرار دیا گیا ہے اور وہاں کے ایک جھیل میں بھی مچھلی کے شکار کے لئے قواعد نافذ کئے گئے ہیں لیکن بلوچستان کے ساحل کو ٹرالرز مافیا کے حوالے کیا گیا ہے اور ہزاروں ٹرالرز مچھلیوں کا غیر قانونی شکار کررہے ہیں یہ حکومت کی سرپرستی کے بغیر ناممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ گوادر کی ترقی پر ڈھائی ارب روپے خرچ کئے گئے ہیں لیکن بارشوں نے اس کا پول کھول دیا ہے۔ بارشوں نے گوادر شہر کو متاثر کیا ہے۔

ترقی کی بنیاد لوگوں کی معاشرتی، سماجی اور بنیادی حقوق کے تحفظ کو مدنظر رکھکر قائم کی جاتی ہے مگر گوادر کی مقامی آبادی مصائب کا شکار ہے اور ترقی زمین پر نظر نہیں اتی۔ انہوں نے کہا کہ گوادر پورٹ اور سی پیک منصوبوں پر بی این پی نے بہت پہلے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا بدقسمتی سے سی پیک کے معاہدوں پر ہمارے کچھ قوم پرستوں نے خاموشی سے دستخط کئے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ گوادر بندرگاہ کی آمدنی کا 25 فیصد حصہ گوادر پر خرچ ہونا چاہیئے اور گوادر بندرگاہ کو صوبے کے دسترس میں دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ریکودیک بلوچستان اور بلوچ عوام کا قومی اثاثہ ہے بی این پی ریکودیک کے معاہدے کو خفیہ رکھنے کی اجازت نہیں دے گی بی این پی کو بھی اسمبلی کے ان کیمرہ اجلاس پر تحفظات ہیں ان کیمرہ اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں عالمی عدالت میں عائد جرمانے اور بیرون عدالت کمپنیوں کے ساتھ سٹلمنٹ کے امور وغیرہ زیر بحث لائے گئے ہیں اور ممکنہ سٹلمنٹ کی صورت میں ریکودیک کی آمدنی میں سے 25 فیصد بلوچستان اور 25 فیصد وفاق کو دینے کے حوالے سے بات ہوئی ہے لیکن بی این پی بلوچستان کو پچاس فیصد حصے دینے کے موقف پر قائم ہے۔

انہوں نے کہا کہ بی این پی نے ہمیشہ سے ریکودیک کے معاہدات پر خدشات کا اظہار کیا ہے اور اسے بے دردی سے لوٹنے کی مزاحمت بھی کی ہے افسوس سابقہ حکومتوں نے اسے مس ہینڈل کیا اور جام کمال حکومت نے ریکودیک منصوبے کے معاملات خفیہ رکھے۔ انہوں نے کہا کہ بی این پی صوبائی حکومت کا حصہ نہیں ہے البتہ ہم نے جام حکومت کی تبدیلی کے لئے کلیدی کردار اداکیا کیونکہ جام حکومت قومی بوجھ تھا اور اس کی پالیسیاں بلوچستان کے عوام کے مفاد میں نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ قدوس بزنجو ہو یا اور کوئی بھی ادارہ ہمارے لئے کوئی مقدس گائے نہیں ہے ہمارے لئے مقدس بلوچستان کی سرزمین ہے جب بھی قدوس بزنجو بلوچستان کے مفادات کے خلاف کام کرے گا بی این پی آواز اٹھائے گی۔ انہوں نے کہا کہ گوادر میں جو تحریک چلی تھی اور لوگوں نے جس رد عمل کا مظاہرہ کیا تھا۔

وہ زیادتیوں کے خلاف تھا اور بی این پی ہمیشہ سے ہی ایسی زیادتیوں کے خلاف برسرپیکار رہی ہے اور اب بھی برسرپیکار ہے یہ ہماری جدو جہد کا تسلسل ہے اور یہ اس عوامی شعور کی غمازی کرتی ہے جو بی این پی نے عوام کو دیا ہے لیکن تحریک کے دوران آگے چل کر سیاسی جماعتوں پر جو تنقید کی گئی اس سے تحریک مشکوک ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ بی این پی اپنے اصولوں پر اب بھی قائم ہے ہم معمولی مراعات پر بلوچستان کا سودا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ 18 جنوری کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں ریکودیک کے مسئلہ پر قرارداد پیش کرینگے۔

بی این پی ساحل و وسائل کی تحفظ کا ضامن ہے ہم نے بلوچستان کے حقوق کی جنگ میں صعوبتیں برداشت کئے اور جیلیں بھی کاٹے لیکن اپنے موقف سے دستبردار نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ بی این پی ماہی گیروں کے سمندر پر شکار اور بارڈر پر کاروبار کے لئے ٹوکن سسٹم اور سیکورٹی کے نام پر عزت نفس کو مجروح کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ وفاق کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ گوادر یا بلوچستان کے عوام کے صبر کا مزید امتحان نہ لے۔ بی این پی مسائل کے حل کے لئے سیاسی بصیرت پر گامزن ہے لیکن جب عوام کے اندر لاوا پٹھے گا تو حکمرانوں کو سوچنے کا بھی موقع نہیں ملے گا۔ اس موقع پر بی این پی کے مرکزی رہنماء حاجی عبدالباسط، ڈاکٹر قدوس، تحصیل صدر نور گھنہ، جنرل سیکریٹری ناصر موسی، ضلعی رہنماء خداداد واجو، ضلعی خواتین سیکریٹری عارفہ عبداللہ اور دیگر بھی موجود تھے۔