|

وقتِ اشاعت :   January 9 – 2022

منشیات ہمارے نسلوں تک میں پھیل چکی ہے۔ جوان، بچے، بوڑھے اب حتیٰ کہ خواتین بھی اس لت میں تیزی سے مبتلا ہورہی ہیں۔کافی تعداد میں گٹر ندی نالوں میں پٹے اور گندے کپڑے پہنے منشیات کے عادی لوگ اس ٹھٹھرتی سردی میں مدہوش پڑے ہوتے ہیں۔ ان میل کچیل سے بھرپور لوگوں کے علاوہ اب ہمارے سفیدپوش تازہ دم خوبرو نوجوان بھی بڑی تعداد میں اس لت میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔

منشیات کا ناسور اب ہمارے تعلیمی اداروں تک وسعت حاصل کرچکی ہے۔ یہ معاشرے کیلئے باعث تشویش ہے۔ والدین کس اذیت سے دوچار ہیں انکی کیفیت وہی سمجھ سکتے ہیں جو خود اس عذاب سے گزر رہے ہیں۔اتنی آسانی سے منشیات تک عام لوگوں کی دسترس اور شہریوں کو یوں آسانی سے منشیات کا ملنا خود انتظامی اداروں کی سنجیدگی کا پول کھولتا ہے۔ہم یقین سے کہتے ہیں کہ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس معاملے پر ذرہ بھی سنجیدہ ہوتے تو ہر چوک چورائے پر منشیات کی خرید و فروخت اس طرح سے عام نہیں ہوتی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر انتظامیہ یا دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ان منشیات فروشوں اور اسمگلرز کے بارے میںلاعلم ہیں تو وہ سب سے بڑے نااہل اور نالائق ہیں ان سے بہتر تو شہر کا ایک موالی ہے جس کے پاس کوئی ریاستی طاقت ،ریاستی مشینری بھی نہیں ہے وہ اچھا ہے کہ جہاں بھی جاتا ہے منشیات کاکھوج لگا لیتا ہے۔ چاہے وہ اپنے شہر میں ہو یا باہر انہیں تمام شہروں میں منشیات ملنے کے پتے معلوم ہوتے ہیں۔


منشیات کو ایک منظم سازش کے تحت ہمارے سماج میں پھیلائی جارہی ہے۔ انتظامیہ اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ تمام والدین، سماجی کارکنان سماج کیلئے درد اور احساس رکھنے والے لوگوں سے دست بستہ اپیل ہے کہ نوجوانوں کو اس لت سے دور رکھنے کیلئے ہرممکن کوشش جاری رکھیں، ہر مجلس ہر پروگرام اور ہر جگہ پر اسکے منفی پہلوئوں کو اجاگر کریں تاکہ نوجوان مزید اس لت میں مبتلا ہونے سے بچ سکیں۔