|

وقتِ اشاعت :   January 10 – 2022

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے مری سانحے پر وزیراعظم عمران خان کی ٹوئٹ پر انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر انتظامیہ تیار نہیں تھی تو آپ کس مرض کی دوا ہیں، استعفیٰ دیں اور گھر جائیں۔

مری میں شدید برف باری کے باعث ہزاروں افراد سڑکوں پر پھنس گئے، شدید سردی اور دم گھٹنے سے ایک خاندان کے 8 اور دوسرے خاندان کے 5 افراد سمیت 22 سیاح جاں بحق ہوگئے تھے۔

وزیراعظم نے مری حادثے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا تھا کہ موسم کی حالت دیکھے بغیر بڑی تعداد میں لوگوں نے مری کا رخ کیا، ضلعی انتظامیہ شہریوں کے رش اور بے مثال برفباری کے لیے تیار نہیں تھی۔

پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں معمول کے ایجنڈے کو مؤخر کر کے مری سانحے کے حوالے سے خصوصی اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔

قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف نے کہا کہ مری میں پیش آنے والے سانحے میں 23 افراد کے جاں بحق ہونے پر پورے ایوان کی طرف سے تعزیت کرتا ہوں، وہاں برفباری جاری تھی اور گاڑیوں میں 20 گھنٹے لوگ پھنسے رہے لیکن کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ معصوم بچے، جوان اور بزرگ دم توڑ گئے اور 20 گھنٹے انہیں کسی نے نہیں پوچھا، میں سوال کرتا ہوں کہ کیا یہ کوئی قدرتی حادثہ تھا یا یا انسانوں کا قتل عام تھا، حقیقت یہ ہے کہ وہاں کوئی انتظام نہیں تھا، ٹریفک پولیس موجود نہیں تھی اور برف ہٹانے کی ذمے دار سی ایم ڈبلیو بھی موجود نہیں تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگ اپنی جان کی بھیک مانگتے رہے لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا، یہ ایک انتظامی اور بدترین نااہلی و نالائقی کا مجرمانہ فعل ہے جس کی کوئی معافی نہیں ہے، جب محکمہ موسمیات نے ان کو خبردار کردیا تھا کہ شدید برفباری ہونے والی ہے تو حکومت نے کیا انتظامات کیے تھے۔

شہباز شریف نے کہا کہ اگر مری میں بے پناہ رش تھا تو مزید سیاحوں کو جانے سے روکنے کے لیے انہوں نے کیا انتظامات کیے، کیا انہوں نے ریڈ الرٹ جاری کیا کیونکہ محکمہ موسمیات کی وارننگ کے بعد اس کی شدید ضرورت تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلا موقع تو نہیں تھا کہ مری میں اتنی برف پڑی ہو یا سیاحوں کا اتنا رش ہو، یہ تو پچھلے دو سال کووڈ کی وجہ سے لوگ مری اور دوسرے پہاڑوں پر نہ جا سکے لیکن اب انہوں نے ملکہ کوہسار کا رخ کیا تو ان کی انتظامی نااہلی سے یہ خوشی کا موقع غم میں بدل گیا جس پر پورا پاکستان اشکبار ہے لیکن ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

انہوں نے کہا کہ ٹوئٹ کی جاتی ہے کہ انتظامیہ تیاری نہیں تھی، اگر انتظامیہ تیار نہیں تھی تو آپ کس مرض کی دوا ہیں، استعفیٰ دیں اور گھر جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک وزیر نے بیان دیا کہ معیشت اتنی ترقی کررہی ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں مری جا رہے ہیں اور مہنگے ہوٹل میں رہ رہے ہیں اور جب یہ حادثہ ہوا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا، ایک نیرو اسلام آباد میں سویا ہوا تھا اور دوسرا نیرو پنجاب میں انتظامی امور کی آڑ میں بلدیاتی الیکشن میں دھاندلی کرنے میں مصروف تھا، مری میں حادثہ ہو چکا تھا اور ان کو قطعاً علم نہیں تھا۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ مری اور دیگر سیاحتی مقامات پر ہر سال ہزاروں لوگ تفریح کرنے جاتے ہیں، چھوٹے موٹے مسائل حل کیے جاتے ہیں، مری میں احتیاطی تدابیر وضع کی جاچکی ہیں جس پر ہر سال عمل ہوتا تھا، نمک کا اسٹاک رکھا جاتا تھا، مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے اربوں روپے کی مشینری وہاں منگوا کر رکھی اور سی ایم ڈبلیو سمیت اداروں کو فنڈ دیے جاتے تھے تاکہ سڑک کی مرمت کی جائے، یہ سب ایس او پیز موجود تھے، فنڈز تقسیم کیے جاتے تھے لیکن اس سال اس کا دور دور تک نام و نشان موجود نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح انہوں نے پاکستان کی معیشت تباہ و برباد کی، بالکل اسی طرح انہوں نے مری کے واقعے کو ڈیل کیا ہے، یہ ایک مجرمانہ فعل ہے، ان 23 افراد کی موت کی 100فیصد ذمے دار یہ حکومت ہے اور انہوں نے یہ قتل عام کیا ہے اور قوم یہ خون انہیں معاف نہیں کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ یہ کتنا بڑا سنگین مذاق ہے کہ واقعے کی تحیققات کے لیے سرکاری افسران پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی ہے، قصور واقعے پر سب نے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن اب ان کی بدترین مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں 23 افراد اللہ کو پیارے ہو گئے اور یہ سرکاری افسران کی کمیٹی بنا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ قتل معاف نہیں ہو گا اور پوری اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امید تھی کہ قائد حزب اختلاف ایک لیڈر کی طرح آج خطاب کریں گے لیکن انہوں نے ایک بار پھر ثابت کیا وہ ایک معمولی لیڈر ہیں جو ہر حادثے پر شعبدے بازی اور سیاست کر سکے، اس کے علاوہ ان کے پاس آج بھی کہنے کو کچھ نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ امید یہ تھی کہ اس اندوہناک واقعے کے بعد ایک ایسی بات ہو گی جس سے یکجہتی کی فضا پیدا ہو جائے لیکن لیڈر پیدا ہوتے ہیں، جعلی طریقے سے بنائے نہیں جا سکے، تیس تیس سال حکومت کر کے یہ لوگ لیڈر نہیں بن سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کہہ رہے تھے کہ نیرو سورہا تھا، یعنی آج کے دور کا پابلو آسکوبار ہمیں بتا رہا تھا کہ نیرو سورہا تھا، اگر انہوں نے محل کھڑے نہیں کیے ہوتے تو آج یہ مری کا سانحہ نہیں ہوتا۔

فواد چوہدری نے کہا کہ یہ اس حکومت سے حساب مانگنا چاہتے ہیں جنہوں نے 3سال میں 13 نئے ریزورٹ بنا دیے، ہم نے پاکستان میں نئے شہروں کی بنیاد رکھی، صرف عمران خان نے اس ملک میں سیاحت کی بات کی اور آج جب ملک میں اندرونی سیاحت کا انقلاب برپا ہو چکا ہے تو ہمیں یہ سبق دے رہے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے دو حصے ہیں، پہلا یہ کہ کیا ہم یہ واقعہ ہونے سے روک سکتے تھے اور دوسرا حصہ ہے کہ ریسکیو کی کوششیں کس حد تک کامیاب ہوئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مری میں ایک دن میں ایک لاکھ 64ہزار گاڑیاں داخل ہوئیں، ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ جب پاکستان تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی باہر لوگوں کے ساتھ ساتھ کھڑے تھے اور مری کے عوام کے ساتھ مل کر ریسکیو کی کوششیں کررہے تھے تو یہاں سے سابق وزیراعظم رہنے والے شاہد خاقان عباسی سے لے کر مسلم لیگ(ن) کا کوئی بھی رکن اسمبلی وہاں نہیں گیا، تحریک انصاف کے سوا کوئی اور پارٹی وہاں نظر نہیں آئی۔

انہوں نے کہا کہ لاکھوں لوگ مری میں 24 گھنٹے میں داخل ہوئے اور ان سب کو ریسکیو کیا گیا، ریسکیو کی تمام کوششیں کامیاب ہوئیں، وزیراعلیٰ پنجاب مری میں تھے، تحریک انصاف کے کارکنان مری میں تھے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں پاکستان میں بڑھتی ہوئی سیاحت کو دیکھتے ہوئے نیا سیٹ اپ بنانا پڑ رہا ہے تاکہ وہ بڑی آبادی کا احاطہ کر سکے لیکن گزشتہ 30سالوں میں ان دونوں جماعتوں نے کچھ نہیں کیا اور یہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے لیکن ہم نئے پاکستان کو تعمیر کررہے ہیں، عمران خان کی قیادت میں پاکستان ترقی کی منازل طے کرے گا اور سیاحت بھی ترقی کرے گی۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بچے، بوڑھے، نوجوان ہمارے دارالحکومت سے دو گھنٹے دور برف میں پھنسے رہے، رات بھر مشکل اور تکلیف میں تھے لیکن ہم ان کو وہ مدد نہ پہنچا سکے جو ان کا حق تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ جب وزیراعظم کے خاندان کی ایک رکن برے موسم اور سیلاب کی وجہ سے چترال میں پھنسی ہوئی تھیں تو حکومت وقت نے ہر قدم اٹھایا، یہاں تک کہ فوج سے ہیلی کاپٹر منگوا کر انہیں ریسکیو کیا، ان لوگوں کو بھی اس طرح ریسکیو کرنا چاہیے تھا، وہ بھی پاکستان کے شہری تھے۔

انہوں نے کہا کہ پورے سوشل میڈیا پر مری کے واقعے کی بات ہو رہی تھی، بیورو کریسی کے دفاتر اور پولیس کو فون کال جا رہے تھے، کوئی تو نوٹس لیتا۔

بلاول نے کہا کہ ایک وزیر سوشل میڈیا پر اس بات کا خیر مقدم کررہے تھے کہ لاکھوں لوگ مری پہنچے ہیں اور یہ معیشت کی ترقی کا ثبوت ہے، اس پر جشن منا رہے تھے اور جب حادثے کی خبر پھیلی تو افسوس کا اظہار کرنے کے بجائے اسی وزیر نے انہی متاثرین کو ذمے دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ان کو نہیں آنا چاہیے تھا، اس قسم کی منافقت ہم نے پاکستان کی تاریخ میں آج تک نہیں دیکھی۔

انہوں نے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ جب بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے تو وزیر اعظم سے لے کر ان کے تمام عہدیدار متاثرین کو ذمے دار ٹھہراتے ہیں، جب کوئٹہ میں ہزارہ برادری نے دھرنا دیا تو وزیراعظم نے انہی لوگوں کو ذمے دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ وہ لاشوں سے بلیک میل نہیں ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ موٹروے پر ریپ کا واقعہ ہوا تب بھی الٹا متاثرہ خاتون کو ذمے دار ٹھہرایا گیا لیکن اب جب وزیراعظم کے گھر سے دو گھنٹے دور واقعہ رونما ہوتا ہے تو وزیراعظم اپنی ٹوئٹ میں کہتے ہیں کہ لوگوں کو پہلے موسم کو دیکھ کر نکلنا چاہیے تھا۔

پیپلز پارٹی چیئرمین نے قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی جانب سے واقعے کی تحیققات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کے مطالبے کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ واقعے کے ذمے داران کے خلاف ایکشن لیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والے دنوں میں بارش، سیلاب اور دیگر تبدیلیوں کے لیے تیاری کرنی ہو گی، اگر اس واقعے کی درست تحقیقات ہوں گی تو ہی ہم آئندہ اس طرح کے حادثات سے بچ سکیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ نیا پاکستان مہنگا پاکستان بن گیا ہے، بجلی، گیس، پیٹرول سمیت سب چیزیں مہنگی ہو گئی ہیں، صرف اس ملک کے عوام کا خون سستا ہوا ہے، 20 لوگ مری میں اتنے بڑے حادثے میں شہید ہو چکے ہیں، اگر تحقیقاتی کمیٹی بنا کر ہم اس سانحے کو بھول جائیں گے تو یہ ان کے خاندانوں اور اس ملک کے عوام کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔

بلاول نے اسپیکر سے اپیل کی کہ وہ حکومت کو واقعے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کے لیے قائل کریں تاکہ ہم اس واقعے کا سبب بننے والی حقیقت تک پہنچ سکیں۔

انہوں نے کہا کہ جب یہ واقعہ ہوا تو وزیراعلیٰ پنجاب کسی میٹنگ میں شریک تھے، اگر وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ حقیقی نمائندے ہوتے تو وہ فوراً ادھر پہنچ کر ان لوگوں کی مدد کرتے، اگر وہاں نہیں جا سکے تو ان کے لواحقین کے پاس جاتے لیکن اس واقعے پر حکومت اور ان کے وزرا کی جانب سے جو سیاست کی جا رہی ہے، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت سیاست سے پہلے انسانیت سیکھے، عوام کے ساتھ ظلم بند کرے اور اپنی ذمے داریوں کو پورا کرے۔