|

وقتِ اشاعت :   January 11 – 2022

تیاری عروج پر تھی اور سب پرجْوش تھے۔یہ گزشتہ مہینہ کی بات ہے جب ہم بی آر سی ( بلوچستان ریزیڈینشل کالج تربت ) کی طرف سے گوادر ٹوْر پر جارہے تھے اور “حق دو تحریک” ابتدئی مرحلے میں تھا۔ گوادر کو دیکھنے کے لیے ہمارے بہت سے دوست پرجوْش تھے کیونکہ آج تک انہوں نے صرف تصویروں اورو یڈیز ( Videos) میں گوادر کو دیکھا تھا۔کوئٹہ اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبا مہرین ڈرائیو ( Road Drive Marine) کو دیکھنے کے لئے بہت بے چین تھے اور ان کا انتظار قابل دید تھا۔کیونکہ کوئٹہ والوں نے صرف وزیر اعلیٰ بلوچستان اور دوسرے وزراء کی ٹیوٹر ( Account Twitter) پر لگی ہوئی تصویریں اورویڈیوز دیکھ کر حیران رہ گئے تھے اور گوادر کو دبئی اور سنگاپور سمجھنے لگے تھے۔اسی دوران مجھے ایک کالم یاد آیا جو میں نے ماضی میں پڑھا تھا جس کا عنوان ” تصویر کا دوسرا رخ ” تھااور اسی طرح شاید میرے ان دوستوں کو تصویر کے دوسرے رخ کا پتہ نہیں تھا۔لیکن گوادر کے آغاز ہی سے میرے دوستوں کو گوادر کی دوسرے رخ کا پتہ چلا جب ان کو معلوم ہوا کہ حق دو تحریک کا احتجاجی دھرنا چل رہا ہے اور 4G سروس نیٹ ورک بند ہے۔
نجی کمپنیوں کے نیٹ ورک اس وقت بند ہوتے ہیں جب لوگ اپنے حق اور حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔
مایوس چہروں کے ساتھ ہم گوادر پہنچے اور گوادر کے مرکز میں واقع نیاآباد پہنچے جو کہ نیاآباد سے زیادہ مایوس آباد لگ رہا تھا۔نیاآباد میں اونچے بنگلوں کے درمیان غریبوں کی جھوپنڑیاں بھی تھیں۔ ان کے حالاتِ زندگی کو دیکھ کر بس ہم افسوس ہی کر سکتے ہیں۔
میں پہلے بھی گوادر اور دوسرے ساحلی شہروں میں گھومتا رہا ہوں لیکن مجھے اس عظیم سرزمین کے وسائل کے بارے میں اتنا پتہ نہیں تھا۔ بچپن سے سنتاآرہا ہوں کہ “گوادر کو پانی دو ” ، “تعلیمی ادارے دو” اور مختصراً ہمارا حق دو۔ڈاکٹر شاہ محمد مری کی کتاب ( سفرنامہ ) ” سورج کا شہر ؛ گوادر ” پڑھنے کے بعد میں نے بھی گوادر اور اپنی ساحل کو قریب سے دیکھنا شروع کر دیا۔ڈاکٹر نے اپنی کتاب ان بلوچ ماہی گیروں کے نام کیا ہے جن کی کشتیاں اور جال جاپانی کوریائی، ٹرالروں کے سامنے ہیچ تھیں اور جن کی کوئی ٹریڈ یونین نہیں۔2004 میں اشاعت ہونے والی کتاب میں جاپانی اور کوریائی ٹرالروں کا ذکر ہے اور آج کسی اور طاقت کی صورت میں یہ ظالم ٹرالر بلوچ ماہی گیروں پر قابض ہیں اور اپنے ہی سمندر میں بلوچ جا نہیں سکتے۔جس شہر میں وزیر اعظم تقریر کرتے ہوئے ناراض بلوچوں کے ساتھ مذاکرات کی بات کی،آج یہی شہر میدان جنگ بن چکا ہے اور میدان جنگ میں سپاہی صرف اپنے حق اور حقوق کی بات کر رہے ہیں۔گوادر جس پر بیرونی قوتیں قابض ہیں یا اپنے لیکن اس حال میں ان کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہاں موجود لوگوں کو کچھ اہمیت ہی نہیںہے۔دل سے نکلتی ہوئی احتجاجی تقریروں نے حکمرانوں کے لیے سوالیہ نشانات چھوڑ ے ہیں جن کا جواب انہیں اپنے عمل سے دینا ہوگا۔اور صوبہ بلوچستان سے نکلتی ہوئی فریادیں اتنی کمزور بھی نہیں ہیں جو اسلام آباد کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں کو سنا ئی نہ دیں۔