|

وقتِ اشاعت :   January 11 – 2022

اس حکومت کے غیر ذمہ دارانہ اقدامات ،ناقص پالیسیوں اور بیڈ گورننس نے جہاں مہنگائی، کرپشن اور بے روزگاری کے باعث عام آدمی کا جینا دو بھر کیا ہوا ہے ،وہیں آئے روز اس حکومت کی ناقص حکمت عملیوں کی وجہ سے مختلف قسم کے سانحات کارونما ہونا اس حکومت کی نا اہلی کو مزید ثابت کر رہے ہیں۔

ابھی سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک کے بعد بہیمانہ قتل کو نہیں بھلا سکے تھے کہ صوبائی اور وفاقی حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے سانحہ مری کی صورت میں ایک اور قیامت ٹوٹ پڑی۔مری میں برف کی سفید چادر اوڑھے پہاڑوں نے تفریح کیلیے آنے والے ہنستے ،کھیلتے ،مسکراتے 23 سیاحوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا۔
ملکہ کوہسار مری کی تاریخ میں پہلی بار اس بے سرو سانی کے عالم میں بیس سے زائد لوگوں کے مرنے کا واقعہ پیش آیا ہے۔گزشتہ حکومتی ادوار میں اس سے کئی گنا زیادہ برف باری ہوئی۔لیکن ان حکومتوں کے بہترین اقدامات کی وجہ سے کوئی ایسا سانحہ رو نما نہ ہو سکا۔پانچ جنوری کو محکمہ موسمیات کی جانب سے شدید برفباری کی پیش گوئی کے باوجود انتظامیہ کے مختلف ڈیپارٹمنٹس میں سے کوئی بھی ان پھنسے ہوئے سیاحوں کی مدد کیلیے نہ پہنچے۔ساری رات سیاح گاڑیوں میں ٹھنڈ اور برفباری کی وجہ سے سسکتے بلکتے رہے لیکن انتظامی اداروں کے سروں پر جوں تک نہ رینگی۔سیاحوں کی کال ڈیٹا کے مطابق چھے سو سے زائد بار ایمرجنسی ہیلپ لائنز پر کالز کی گئیں لیکن انہیں بچانے کے لیے کوئی انتظامی اقدامات نہ کیے گئے۔ہلاکتوں کی اطلاعات موصول ہونے کے بعد مرکزی اور صوبائی حکومتیں حرکت میں آئیں مگر اس دلخراش واقعے میں اس وقت تک بائیس انسانی جانیں بے بسی کے عالم میں تڑپ تڑپ کر جانیں دے چکی تھیں۔
پنجاب حکومت کو سانحہ مری کے حوالے سے ابتدائی رپورٹ پیش کر دی گئی جس کے مطابق مری اور گرد و نواح میں موجود سڑکوں کی گزشتہ دو برس سے مرمت نہیں کی گئی تھی اور گڑھوں میں پڑنے والی برف سخت ہونے کے باعث ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔روپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مری میں موجود ایک نجی کیفے کے باہر پھسلن ہونے کے باوجود کوئی حکومتی مشینری موجود نہیں تھی۔رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ مری کے مختلف علاقوں میں بجلی نہ ہونے کے باعث سیاحوں نے ہوٹلز چھوڑ کر گاڑیوں میں رہنے کو ترجیح دی۔رات گئے ڈی سی راولپنڈی اور سی پی او راولپنڈی کی مداخلت پر مری میں گاڑیوں کی آمد و رفت پر پابندی لگائی گئی اور مری کی شاہراؤں پر ٹریفک بند ہونے کے باعث برف ہٹانے والی مشینری کے ڈرائیورز بھی بروقت نہ پہنچے۔
پاکستان کی تاریخ میں سانحات اور نقصانات ہونے کے بعد کمیشن بنائے جاتے ہیں۔کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں،اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے ایسے سانحات کا ذمہ دار حکومتوں کو قرار دیا جاتا رہا ہے۔نہ آج تک سانحات کا سلسلہ رک سکا اور نہ ان سانحات کے ذمہ دار لوگوں کو کڑی سزائیں دی جا سکیں۔جہاں حکومت وقت سانحے کے دوران چیختی،چلاتی،تڑپتی انسانیت کیلیے کچھ نہ کر سکی وہاں خوبصورت مری کے بدصورت لوگوں نے انسانیت کی دھجیاں اڑاتے ہوئے انسانیت کو پاش پاش کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق مری کے لوگ اتنے بے حس ہو چکے تھے کہ انہوں نے وہاں ایک رات کمرے کا کرایہ پچیس ہزار سے پچاس ہزار تک لیا،گرم پانی کا ایک گلاس ہزار روپے میں بکتا رہا،چائے کا ایک کپ پانچ سو میں فروخت کرتے رہے۔ٹائروں کو چین لگانے کیلیے چار ہزار جبکہ برف میں پھنسی گاڑی کو نکالنے کے پانچ ہزار سے دس ہزار وصول کیے گئے۔ مری کے مقامی لوگوں نے برف میں پھنسے ہوئے مجبور لوگوں کو بالکل اسی طرح لوٹا جس طرح میدان جنگ میں کوئی مال غنیمت لوٹا جاتا ہے۔نہ ہی انہیں چھوٹے معصوم بچوں پرکوئی رحم آیا، نہ ہی صنف نازک کیلیے ان کے دل میں کوئی ترس جاگا اور نہ ہی نوجوان لڑکوں کے ہمدرد بن سکے۔ایک سیاح خاتون کے مطابق 25 ہزار میں کمرہ ملا، بچی کی طبیعت بگڑنے لگی تو ہوٹل انتظامیہ کی جانب سے ایک کپ گرم پانی تک نہ دیا گیا۔کیا یہ انسانیت ہے؟ہمارا اسلام کیا اسی چیز کا درس دیتا ہے؟
بائیس کروڑ آبادی کے ہجوم میں سے ایک لاکھ گاڑیاں لے کر لوگ مری پہنچے تو حکومتی وزراء اس کو معاشی کامیابی سمجھنے لگے اور جب واقعہ ہوا تو اس کا ذمہ دار مری جانے والوں کو ٹھہرانے لگے۔مری کی برف سیاحوں کیلیے موت کی قبر ثابت ہوئی، متعدد سیاح دم گھٹنے ،برف باری اور ٹھنڈ کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے گئے۔حکومت وقت نے اس سانحے میں مرنے والوں کیلیے فی کس آٹھ لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا ہے تو یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کیا پیسوں سے ان کے ورثاء پر ٹوٹنے والی قیامت کا ازالہ کیا سکتا ہے یقیناَ نہیں۔کیا وہاں کی انتظامیہ اس بات سے باخبر نہیں تھی کہ موسم کی کیا صورتحال ہو گی’ وہاں قیام و طعام کا جائزہ کیوں نہیں لیا گیا کہ کتنے سیاحوں کے رہنے کی جگہ ہے’ وہاں کتنی گاڑیوں کے داخلے کی گنجائش ہے۔یہ سب کام انتظامیہ کے ذمے ہوتے ہیں اور انتظامیہ کو سنبھا لنا حکومت کا کام ہوتا ہے۔انتظامیہ نے پہلے سے حکمت عملی کیوں نہیں بنائی؟جب ایک سانحے کی وجہ سے کئی جانوں کا نقصان ہو گیا تو انتظامیہ پھر حرکت میں کیوں آئی’۔حکومت نے پہلے ایکشن کیوں نہیں لیا.؟