|

وقتِ اشاعت :   January 11 – 2022

کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کو اب صاف طور پر ایک خونی شاہراہ کا نام دیا جاسکتا ہے کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب اس شاہراہ پر جو کہ دیگر صوبوں کی شاہراہوں کی طرح ڈبل ٹریک نہیں بلکہ سنگل ٹریک ہے حادثوں میں قیمتی جانوں کے چلے جانے کی خبریں اخبارات کی زینت نہیں بنتیں۔ کمشنر مکران ڈویژن طارق زہری کی المناک موت آج بھی ہمارے ذہنوں پر نقش ہے کہ ایک اعلیٰ انتظامی آفیسر بھی اس سنگل ٹریک سڑک پر سفر کرتے ہوئے گاڑی حادثے کا شکار ہونے پر جل کر راکھ بنا اور ہزاروں لوگوں کو سوگوار کر گیا۔ قلات کے فٹبال کے کھلاڑی ایک میچ جیتنے پر واپس لوٹ رہے تھے کہ ان کی گاڑی حادثے کا شکار ہوگئی چھ یا سات فٹبال کے نوجوان کھلاڑی موت کی آغوش میں چلے گئے ۔

ایک پوری سالانہ رپورٹ پر غور کیا جائے تو اس قومی شاہراہ پر سینکڑوں چھوٹے بڑے حادثات تواتر کیساتھ رونما ہو رہے ہیں ۔حکومتیں اس شاہراہ کو ڈبل کرنے کے معاملے میں سنجیدہ نظر نہیں آتیں، وہ بلوچستان کے لوگوں کو موت کے منہ میں جاتا تو دیکھ رہی ہیں لیکن اس قومی شاہراہ کو ڈبل ٹریک بنانے میں لیت ولعل سے کام لیتی آرہی ہیں ۔گزشتہ دنوں وڈھ کے مقام پر ایک ہی خاندان کے سات افراد شہید ہوگئے ۔ بلوچستان کے عوام اس حادثے کے غم میں مبتلا تھے کہ گزشتہ روز اوتھل کے قریب چیئرمین سینیٹ حاجی صادق سنجرانی کے چھوٹے بھائی حاجی سالار سنجرانی کی گاڑی کو ایک ٹرالر نے کچل دیا جس سے اس کے ڈرائیور کی موقع پر موت واقع ہوگئی جبکہ حاجی سالار سنجرانی کو کراچی پہنچایا گیا جہاں انہوں نے بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موت کو گلے لگالیا ۔ابھی تک نوجوان حاجی سالار سنجرانی نے زندگی کی صرف اور صرف پچیس بہاریں ہی تو دیکھی تھیں کہ اس سنگل ٹریک نے انہیں اپنے والدین اور عزیز واقارب اور دوستوںسے چھین لیا ۔اس پر جس قدرماتم کیا جائے کم ہے ۔

حکومتیں ہیں کہ ان کی ڈھٹائی اور لاپرواہی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ،جب بھی بلوچستان کی قومی شاہراہوں کی تعمیر کی بات ہوتی ہے تو این ایچ اے کے چیئرمین جو کہ اسلام آباد کے ائیر کنڈیشن کمرے میں براجمان رہتے ہیں ان سمیت وزیر این ایچ اے کے ہاتھ پائوں فنڈ ریلیز کرنے پرپھول جاتے ہیں ان کے دل کی دھڑکن تیز ہونے لگتی ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت ملک بھر میں 15کے قریب موٹرویز ہیں جو کہ 3796کلو میٹر کا فاصلہ بنتے ہیں جس میں ایک بھی بلوچستان میں نہیں یعنی بلوچستان کو موٹر وے کی سہولت تک حاصل نہیں ،باقی تینوں صوبوں میں جی ٹی روڈز کے ساتھ ساتھ موٹرویز بھی بنائے جارہے ہیں اور تواتر کیساتھ بنتے نظر آرہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں وزیراعظم عمران خان نے ڈیرہ اسماعیل خان اسلام آباد موٹروے کا افتتاح کر کے بلوچستانیوں کے زخموں پر نمک چھڑکا۔ بد قسمتی کی بات یہ کہ ملک میں15موٹرویز ایم ون سے لیکر ایم چودہ تک کی ایک لسٹ ہے بلوچستان کو چھوڑ کر تینوں صوبوں حتیٰ کہ چھوٹے چھوٹے شہروں کو چھ چھ لائنوں اور چار لائنوں کی سڑکوں کی سہولت دی گئی ہے جب بلوچستان کی شاہراہوں پر نظر دوڑائیں تو اس لسٹ میں رتو ڈیرو تا گوادر 892کلو میٹر کو ڈبل لائن جبکہ کراچی حب نادرن بائی پاس جو کہ محض 75کلو میٹر کا فاصلہ ہے

یہ بھی ڈبل لائن ہے اس کے مقابلے میں ملک بھر میں کہیں بھی ڈبل لائن نہیں بلکہ پشاور اسلام آباد 155کلو میٹر چھ لائن، اسلام آباد، لاہور،367کلو میٹر چھ لائن، لاہور عبدالحکیم 230کلو میٹر چھ لائن ،پنڈی بھٹیاں ملتان 309کلو میٹر چار لائن، ملتان سکھر387کلو میٹر چھ لائن، سکھر حیدرآباد302کلو میٹر چھ لائن ،دادو حب270کلو میٹر6لائن ،رتوڈیرو گوادر892کلو میٹر صرف ڈبل لائن، حیدرآباد، کراچی136کلو میٹر 6لائن ، کراچی نادرن بائی پاس57کلو میٹر ڈبل لائن، لاہور کھاریاں57کلو میٹر ڈبل لائن، صوابی چکدرہ81کلو میٹر چار لائن اور ڈیرہ اسماعیل خان 280کلو میٹر چار لائن دی گئی ہے جبکہ پورا بلوچستان موٹروے سے محروم ہے۔ سی پیک جو کہ گوادر بلوچستان کے دم خم سے دنیا کے نقشے پر جانا جاتا ہے لیکن اس سے حاصل ہونیوالی تمام سہولتیں اور آمدنی دیگر تین صوبوں کے نصیب میں لکھی جاتی ہیں جبکہ بلوچستان کے لئے محرومیاں ہی محرومیاں ہیں جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں ۔حکومتیں اور حکمران نئے نئے چہرے لیکر جھوٹ پر جھوٹ بولے جارہے ہیں اگر بلوچستان کے مسائل سنجیدگی کے حل کئے جاتے تو گوادر کے مسائل کے حل کے لیے مولانا ہدایت اللہ کو گوادر کے عوام کے ساتھ ایک ماہ تک ہڑتال نہ کرنا پڑتا۔ بلوچستان کے لوگوں سے ان کا روز گار چھینا جارہا ہے

بارڈر ٹریڈ کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ، خاردار تاریں لگا کر دو اسلامی ممالک افغانستان اور ایران کیساتھ علاقائی روابط سمیت تجارت پر پابندی لگا کر ایسا ظاہر کیا جارہا ہے کہ جیسے یہ واہگہ بارڈر کو جالگتے ہیں جبکہ ایسا نہیں آئے دن مکران کے تاجروں کے بیانات اس پابندی کی مخالفت میں شائع ہو رہے ہیں لیکن یوں لگتا ہے کہ بلوچستان کے حکمران بے بس ہیں بلوچستان کو صرف اور صرف اسلام آباد سے کنٹرول کیا جارہا ہے یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں بیروز گاری اور قومی شاہراہوں پر حادثات کی شکل میں اپنے جوانوں کو کھورہا ہے ۔حکومت سب اچھا ہے کاراگ الاپنے کے سوا کچھ نہیں کر رہی ۔ جب میں یہ کالم لکھ رہا تھا تو میں نے خبروں میں سنا کہ مری میں 20سیاح جو کہ شدید برفباری کے نتیجے میں اپنی گاڑیوں میں دم گھٹنے سے جاں بحق ہوگئے ،اس سے پورا ملک سوگوار ہوا کہ کس طرح یہ بیگناہ افراد انتظامیہ کی بدنظمی اور ناقص انتظامات کے باعث موت کے منہ میں چلے گئے۔

ان اموات پرجتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ خبروں میں بتایا گیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے مری کا فضائی جائزہ لیتے ہوئے فوری طور پر مری کو ضلع کا درجہ دیتے ہوئے وہاں پر ایڈیشنل کمشنر اور ایس پی تعینات کر کے برف ہٹانے کے لیے عملہ کو جدید نظام سے لیس کرنے کی ٹھان لی ہے۔ کہنے کو یہ انتہائی اچھی بات ہے اور حکومت کا اچھا اقدام لیکن دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ حب کہ قریب دو مختلف بسوں کے حادثات میں لگ بھگ 20اور25مسافر آگ لگنے سے جاں بحق ہوئے، کئی پک اپ گاڑیاں نذر آتش ہوئیں لیکن نہ تو صوبائی حکومت اور نہ ہی وفاقی حکومت ٹس سے مس ہوئی، نہ ہی ان کے لواحقین کو امدادی رقم دی گئی، ایک ہی ملک میں صوبوں کے لیے الگ الگ قوانین۔ یہ سوال ہر بلوچستانی کے ذہن میں اٹھتا ہے کہ کیا بلوچستانیوں کے جانوں کی کوئی اہمیت نہیں ،کیا یہ انسان نہیں ؟اگر ہیں تو پھر ان کے ساتھ اور بلوچستان کیساتھ70سالوں سے جاری امتیازی سلوک کیوں؟