|

وقتِ اشاعت :   January 15 – 2022

بلوچ سماج تیزی سے ارتقائی عمل سے گزررہا ہے۔ معاشرتی اور ثقافتی ارتقاء نے بلوچ سماج کو ایک اہم اور مثبت موڑ پر لاکر کھڑا کیا ہے جس سے بلوچ سماج کا ڈھانچہ جدید سائنسی بنیادوں پر استوار ہوگیا ہے جس کی وجہ سے جدید نیشنلزم کا ابھار ہوا۔ بلوچ سیاست میں خواتین کی بھرپور شرکت نے مزید روشن خیالی اور ترقی پسندانہ سوچ کو فروغ دیا۔

بلوچ سیاسی قیادت میں خواتین کا کردار سامنے آنا شروع ہوا۔ لیڈرشپ میں خواتین نے مساوی بنیادوں پر اپنے آپ کو منوایا۔ اسی طرح سماجی اور ثقافتی بنیادوں پر بھی ارتقائی عمل جاری ہے۔ ثقافتی تقاریب میں بھی خواتین اور بچیوں نے حصہ لینا شروع کردیا ہے۔ بلوچ معاشرے میں ” لیوا ” یا ”دو چاپی” ثقافتی رقص ہے۔ جس کا انعقاد شادی بیاہ اور دیگر خوشی کے موقع پر کیا جاتا ہے۔ یہ اجتماعی اظہار کا موقع ہوتا ہے جس میں کثیر تعداد میں لوگ حصہ لیتے ہیں۔ ہر قوم کی پہچان اس کی ثقافت سے ہوتی ہے۔ ثقافت قوموں کا مرکزی تصور سمجھا جاتا ہے۔
حال ہی میں بلوچی ثقافت میں ایک انقلابی تبدیلی سامنے آئی ہے۔ جس میں ”دو چاپی” میں بلوچ طالبات نے حصہ لیا۔ بلوچستان کی لسبیلہ یونیورسٹی میں ایک ”دو چاپی” کا انعقاد کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں طالبات طالب علموں کے ہمراہ ”دو چاپی” کررہی ہیں۔
وڈیو کو مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے شیئر کرکے حمایت اور مخالفت میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تنقید کرنے والے اسٹیبلشمنٹ کے موقف کی تائید کرتے ہیں اور خود بھی ذہنی پسماندگی کا شکار ہیں، وہ نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں۔ ان کو اپنا ذہنی علاج کرانے کی ضرورت ہے۔ اگر ماضی پر روشنی ڈالی جائے تو بلوچ خواتین نے گلوکاری کے میدان میں بلوچ کلچر کو فروغ دیا۔ جن میں آمنہ طوطی، شریفہ بلوچ اور زلیخہ بلوچ سرفہرست ہیں۔ اسی طرح بلوچی شاعری میں بھی بلوچ خواتین نے اہم کردار ادا کیا جن میں بانل دشتیاری کا نام سرفہرست ہے۔ بانل دشتیاری میرے استاد اور سینئر صحافی نادرشاہ عادل کی والدہ تھیں۔ اسی طرح کراچی کی قدیم بلوچ آبادی لیاری میں خواتین اور بچیاں سماجی سرگرمیوں خصوصاً اسپورٹس میں متحرک نظر آتی ہیں۔ جہاں کسی زمانے میں باکسنگ، سائیکلنگ اور فٹبال صرف مرد کرتے تھے۔ لیکن آج آپ کو بلوچ لڑکیاں باکسر ملیں گی۔ بلوچ بچیاں سائیکلسٹ ملیں گی۔ فٹبال کے میدان میں لڑکیوں نے اپنا لوہا منوایا۔ بلوچستان میں آج آپ کو صحت کے شعبے میں بے شمار بلوچ خواتین ڈاکٹرز فرائض انجام دیتی نظر آئیں گی۔ تعلیم کے شعبے میں پروفیسرز اور لیکچررز ملیں گی۔ انتظامی امور کے شعبے میں سترہ گریڈ سے لے کر بیس گریڈ کی آفیسرز خواتین ملیں گیں۔ آج بلوچ خواتین اینکرپرسن ہیں۔ صحافت کے پیشے سے بے شمار بلوچ خواتین منسلک ہیں۔ ایک ایسا زمانہ بھی تھا کہ بلدیاتی انتخابات میں بلوچ خواتین امیدوار نہیں ملتی تھیں۔ آج صوبائی اور وفاقی کابینہ میں بلوچ خواتین وزراء اور مشیر ملیں گی۔ بلوچی دو چاپی میں خواتین کا حصہ لینے کو تنقید کا نشانہ بنانے والے دراصل بلوچ معاشرے کی ترقی پسندانہ سوچ سے ڈر اور خوف میں مبتلا ہیں۔ کیونکہ بلوچ خواتین بلوچ سیاست میں حصہ لے کر بلوچ تحریک کی سربراہی کررہی ہیں۔ یہاں تک کہ بلوچ مردوں کی طرح بلوچ خواتین بھی شہادت کو قبول کررہی ہیں۔ جن میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سابق چئیرپرسن بانک کریمہ بلوچ سرفہرست ہیں۔ انہوں اپنے خون سے بلوچ معاشرے میں یہ ثابت کیا ہے کہ بلوچ خواتین بھی بلوچ تحریک میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہیں۔ وہ ایک دلیر لڑکی تھی۔ اسی طرح بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی مرکزی چئیرپرسن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ طلباء سیاست میں سرگرم ہیں جس کی پاداش میں ان کو دھمکانے اور خاموش کرانے کے لیے اس کے بھائی اور کزن کو جبری طور لاپتہ کیا گیا۔
بلوچ معاشرے میں خواتین کو سیاسی، سماجی اور ثقافتی میدان میں مساوی حقوق حاصل ہورہے ہیں۔ جس سے بلوچ معاشرہ ایک ارتقائی عمل سے گزررہا ہے۔ اس عمل سے معاشرے میں ایک انقلابی تبدیلی آگئی ہے۔ اگر دیکھا جائے کسی بھی قوم کی ترقی اور خوشحالی اس وقت ہوگی جب ان کی آدھی آبادی (خواتین) سیاسی اور سماجی شعبوں میں حصہ لیں۔لیکن صد افسوس کہ پاکستان میں بلوچ کلچر کو سمجھنا تودرکنار وہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک لفظ بلوچ اور بلوچی کا مطلب تک سمجھ نہیں سکے۔ ہمارے حکمران کبھی کہتے ہیں کہ ملک میں بلوچی عوام کو مساوی حقوق حاصل ہیں تو کبھی کہتے ہیں انہیں بلوچی عوام پر فخر ہے۔حالانکہ بلوچی بلوچوں کی زبان ہے اور وہ خود بلوچ ہیں۔
بلوچ تہذیب وثقافت کے مطابق لڑائی کے دوران دشمن کی خواتین اور بچے جنگ سے مستثنٰی ہوتے ہیں۔ خواتین اور بچوں پر ہاتھ اٹھانا عیب تصور کیا جاتا ہے۔لیکن آج بلوچ معاشرے میں اس کے برعکس ہورہا ہے۔ بلوچ علاقوں میں خواتین اور بچوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کیا جارہا ہے۔ اس کی کئی مثالیں ہیں۔ کیچ میں تاج بی بی کو فائرنگ کرکے قتل کیا جاتا ہے۔ جبکہ تربت کے علاقے ڈنک میں ملک ناز کو شہید کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ضلع آواران میں چار بلوچ خواتین کو گرفتار کرکے ان کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کی جاتی ہے۔
پاکستان تہذیبی بحران کا شکار ہے بلوچ تہذیب وثقافت کی خلاف ورزی ہورہی ہے جس کی وجہ سے آج بلوچ سماج ایک جنگی صورتحال سے دوچار ہے۔ پورا بلوچستان شورش زدہ ہوچکا ہے۔
بلوچ معاشرے میں خواتین کا بے حد عزت و احترام ہے۔ جبکہ ہم نے غیر بلوچ معاشرے میں ایسے بھی واقعات رونما ہوتے دیکھے ہیں جس میں ایک لڑکی پر سینکڑوں کی تعداد میں مرد حملہ کرتے ہیں۔ 2021 کو لاہور میں ایک لڑکی 14 اگست کو شام ساڑھے چھ بجے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گریٹر اقبال پارک میں یوٹیوب کے لیے ویڈیو بنا رہی تھیں کہ اچانک وہاں پر موجود تین، چار سو سے زیادہ افراد کے ہجوم نے اْن پر حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اتنا شرم ناک تھا کہ انسانیت بھی تڑپ گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک وحشی معاشرہ ہے جہاں صرف درندے رہتے ہیں۔
جبکہ بلوچ معاشرہ اس کے برعکس ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والی صحافی رمیشہ علی نے گوادر میں حق دو بلوچستان تحریک کی ریلی کی کوریج پراپنے تاثرات میں لکھی ہے کہ آدمیوں کے سمندر میں رپورٹنگ کی اور میرا بال بھی بیکا نہ ہوا۔ میں ایک بینچ کے اوپر کھڑی تھی اور میرے آگے پیچھے، دائیں بائیں مرد ہی مرد گزر رہے تھے۔ میں نے اپنا کام جاری رکھا اور کسی نے مجھے کچھ نہ کہا اور نہ ہی مجھ سے بد تمیزی کی۔
بلوچ معاشرے میں بیٹی کو جہیز سے استثنیٰ حاصل ہے۔ بلکہ لڑکے والے لڑکی والوں کو جہیز دیتے ہیں۔ جبکہ غیر بلوچ معاشرے میں جہیز کی وجہ سے بے شمار لڑکیوں کی زندگیاں تباہ و برباد ہوگئیں اور بے شمار لڑکیاں گھٹ گھٹ کر زندگی گزار رہی ہیں۔ غیر بلوچ معاشرے میں عموما ًرشتہ ٹوٹنے کے خوف سے بیٹی والے بیٹے والوں کے مطالبات کو پورا کرتے جاتے ہیں اور اپنی کمائی کا خطیر حصہ جہیز کے نام پر داماد کو دے دیتے ہیں۔
خدارا ! خواتین کو انسان سمجھیں۔ ان کو بھی سیاسی، سماجی اور ثقافتی طور پر مساوی حقوق حاصل ہیں۔ عورت ایک ماں ہوتی ہے۔ اس کے بغیر دنیا ادھوری ہے۔ جس نے دنیا کو جنم دیا ہے۔