2018ء کے انتخابات میں ایک نئی سیاسی پارٹی’’ بلوچستان عوامی پارٹی‘‘ کے نام سے بنی اور اْس نے اندازوں سے بڑھ کر نشستیں بھی جیتیں۔جام کمال خان کی قیادت میں نہ صرف بلوچستان عوامی پارٹی قائم ودائم رہی ہے بلکہ صوبے میں اچھی حکمرانی کی بنیاد رکھنے میں بھی جام کمال کا نام سر فہرست ہے۔ سابق وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف بغاوت کا آغاز ان کے حلف اٹھاتے ہی ہو گیا تھا کیونکہ انہی کی پارٹی کے سپیکر قدوس بزنجو بھی وزارت اعلیٰ کے امیدوار تھے۔
سپیکر صاحب کی نجی محفلیں ہوں یا میڈیا گفتگو وہ ہر فورم پر کھل کر جام کمال کی مخالفت میں پیش پیش نظر آئے۔ چنانچہ جام کمال کو وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کیلئے سیاسی کھچڑی پکنے لگی۔ جام کمال خان کو جب اس بات کا ادراک ہوا کہ حزب اختلاف سمیت باپ پارٹی کے بھی چندعہدیداران انکے خلاف سازش میں شامل ہیں تو انہوں نے منصب کے بجائے اپنی جماعت کو قائم رکھنا زیادہ مناسب سمجھا اورعبدالقدوس بزنجو صاحب کیلئے وزارت اعلیٰ کی راہ ہموار کرتے ہوئے خود استعفیٰ گورنر کو پیش کردیا۔ چونکہ عبدالقدوس بزنجو حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کی حمایت سے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے ہیں لیکن حزب اختلاف کی جانب سے یہ حمایت بلا معاوضہ نہیں تھی بلکہ اپوزیشن کو اس بات کی ضمانت دی گئی تھی کہ بلوچستان حکومت اور وزیر اعلیٰ ان کے تمام سیاسی مفادات جن میں ترقیاتی فنڈز، نوکریوں یا تبادلوں میں مدد اور ان کے حلقوں میں اہم تقرریوں میں ان کی مرضی کو شامل کیا جائے گا
چنانچہ نئے وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالتے ہی صوبائی بیوروکریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت سے تقرریوں اور تبادلوں کے اعلامیئے جاری کرنا شروع کردئیے اور جام کمال کے دور حکومت میں منظور ہونے والے ترقیاتی منصوبوں کو ختم کرنے یا تبدیل کرنے پر غور و غوض شروع کردیا۔ جا م کمال صاحب کی جانب سے بحیثیت وزیرِ اعلیٰ صوبے کے تمام محکمہ جات پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے اور میرٹ و شفافیت یقینی بنانے کو ناقدین نے مداخلت کا نام دیا مگر حقیقت تو یہ ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے اپنے دور حکومت کے ابتدائی 3 سالوں میں جس برق رفتاری سے بلوچستان کو ترقی کی راہوں پر گامزن کیا ہے اس کی نظیر گزشتہ 75 سالوں میں نہیں ملتی۔بات اگر ترقیاتی منصوبوں کی ہو یا تعلیم و صحت کے شعبوں میں بے مثل اقدامات کی، بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے کیے گئے اقدامات ہوں یا حقوق نسواں کے لیے مرتب کی گئی پالیسیز ، جام کمال خان نے اپنے عہد حکومت میں بلوچستان کی مثالی خدمت کی ہے۔ جام کمال کی زیرقیادت بلوچستان برق رفتاری سے ترقی و تعمیر کی منازل طے کر رہا تھا مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ ایک غیر جمہوری اقدام کے باعث ترقی و تعمیر کی رفتار متاثر کردی گئی۔
اعداد و شمار کی بات کی جائے تو جام کمال کے دور حکومت کے دوران محکمہ صحت میں 38089.36 ملین روپے کی لاگت سے عوام کے لیے طبی سہولیات کے منصوبے، 1300 ڈاکٹروں سمیت 5194 بھرتیاں۔ نصیرآباد، تفتان، صحبت پور اور سوراب میں نئے ہسپتالوں کی تعمیر، ژوب، تربت اور نصیر آباد میں 20 بیڈز پر مشتمل جدید انتہائی نگہداشت کے یونٹس کا قیام، تربت میں میڈیکل کالج کا قیام، شیخ زاہد کالج میں کینسر بلاک اور بی ایم سی ایچ میں عارضہ قلب کے بلاک کا قیام بھی جام کمال کی کاوشوں سے محض 3 سال کے قلیل عرصے میں ممکن ہوا۔محکمہ تعلیم میں اگر جام حکومت کی کارکردگی کی بات کی جائے تو 52227.39 ملین کی لاگت کے ترقیاتی منصوبوں کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
ہائیر سیکنڈری تعلیمی اداروں میں 627 بھرتیاں۔
45 کالجوں کی اپ گرڈیشن،
مختلف اضلاع میں 31 نئے کالجوں کا قیام۔
چارٹرڈ اکاونٹسی آف پاکستان، ادارے کا قیام۔
بلوچستان انٹر میڈیٹ بورڈ کی طلباء کو آن لائن پورٹل پر رسائی۔
بی آر سی اور کیڈٹ کالجز کے متعلق لائحہ عمل کا قیام۔
بلوچستان ٹیکنیکل ٹریکنگ اور ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز کو سٹریم لائن کرنا شامل ہے۔ اسی طرح زراعت کے شعبے میں 21033.36 ملین روپے کی لاگت سے زرعی شعبے کی ترقی کے منصوبہ جات تشکیل دیئے گئے جن میں 105 نئی بھرتیاں۔50 فیصدی رعایت پر 587 کسانوں کو گرین ٹریکٹروں کی فراہمی۔69670 ایکڑ بنجر زمین کو قابل کاشت بنایا گیا۔زمیں کو ہموار اور قابل کاشت بنانے کے لیے 11 بلڈوزروں کی خریداری کی گئی۔بروقت اقدامات کر کے ٹڈی دل کا خاتمہ کیا گیا جس سے نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان بھرمیں ہونے والی ممکنہ تباہ کاریوں سے فصلوں کو بچایا گیا۔ اس کے علاوہ محکمہ معدنیات میں 2303.92 ملین روپے کے ریکارڈ اقدامات اٹھائے گئے جن میں بلوچستان معدنیات پالیسی 2019 کا تاریخ میں پہلی مرتبہ قیام۔بلوچستان معدنیات قوانین 2002 اور کان کنی ایکٹ 1923 میں 25 ترامیم۔ 500 سے زائد کان کنوں کی تربیت سازی کی گئی۔
انہی بہترین اقدامات کی بدولت 2020 سے 2021 کی سالانہ رائلٹی میں %56 اضافہ ریکارڑ کیا گیا۔ صوبے کی تاریخ میں آج تک کسی بھی حکومت نے سابقہ حکومتوں کے منصوبوں کو مکمل نہیں کیا بلکہ انہیں ادھورا چھوڑ کر قومی خزانے کا ضیاع کیا گیا مگر جام کمال نے ماضی کی حکومتوں کی جانب سے 984 ترقیاتی منصوبوں کو ادھورا چھوڑنے کی بجائے پائے تکمیل تک پہنچایا اسکے ساتھ ساتھ جام کمال حکومت نے مالی سال 19-2018 کے 608 ترقیاتی منصوبے مکمل کیے جبکہ پی ایس ڈی پی 20-2019 میں 272 اور سالانہ ترقیاتی پروگرام 21-2020 میں 104 منصوبے مکمل کیے۔ہردلعزیز سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب جام کمال خان نے تمام شعبوں میں مثالی اقدامات سے یہ ثابت کیا کہ انکی قیادت میں بلوچستان صحیح سمت کی جانب گامزن اور برق رفتاری سے اقتصادی ترقی کی منازل طے کر رہا تھا۔ جام کمال صاحب نے بلوچستان کی ترقی کیلئے صرف صوبائی منصوبوں پر ہی توجہ مرکوز نہیں رکھی بلکہ وفاقی منصوبوں کی تکمیل کیلئے بھی کوششیں کیں۔صوبے کیلئے مختص وفاقی منصوبوں کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ جامعہ تربت کے دوسرے مرحلے کا قیام۔خضدار، سنی، گشی کور، شینزک ٹوپک سمیت وندر میں 11 ڈیموں کا قیام۔زیارت شہر کی تعمیر و ترقی۔10 ارب درختوں کی سونامی اسکیم فیز 1۔کیڈٹ کالج گوادر کا قیام۔نواہی گوادر شہر کی تعمیر نو۔ہرنائی سنجاوی روڈ۔ژوب کچلاک روڈ سمیت کوئٹہ مغربی بائی پاس روڈ کی ڈیولپمنٹ۔
صوبہ بلوچستان قدرتی وسائل کے ساتھ ساتھ مذہبی اعتبار سے بھی اہمیت کا حامل ہے۔ اس صوبے کے مختلف شہروں اور علاقوں میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں یہی وجہ ہے کہ جام کمال نے اپنے دور حکومت میں بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کیلئے حکومتی سرپرستی میں یاتریوں کے لیے مالی معاونت۔ اقلیتی برادری کے لیے 1618 تعلیمی وظائف اور اسکالرشپ۔213 اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی تعمیر نو۔بلوچستان یقین سازی ترمیمی بل 2021۔صوبائی اور ضلعی زکوٰۃ کی کمیٹیوں کا انعقاد اور پرائمری سطح پر بنیادی اسلامی تعلیمات کی ترویج جیسے احسن اقدامات اٹھائے۔
عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہر صاحب اقتدار شخص کی ذمے داری ہوتی ہے اور جام کمال خان نے اس ذمے داری کو نبھاتے ہوئے سوشل پروٹیکشن کے تحت غربت کے خاتمے کے لیے بل کے مسودے کی تیاری۔بچوں کے تحفظ کے لیے1121 ہیلپ لائن کا قیام۔معذور افراد کے لیے ملازمتوں میں 5% کوٹہ اور خصوصی مالی معاونت پروگرام کا انعقاد کیا جو انکی عوام دوست کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
نوجوانوں کو صحت مندانہ سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے کیلئے بھی جام حکومت پیش پیش رہی اور 17 سال بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان گولڈ کپ ہاکی اینڈ فٹبال چمپئن شپ کا انعقاد ممکن بنایا اور ساتھ ہی ساتھ 452 کھلاڑیوں کی تینتیسویں نیشنل گیمز پشاور میں شرکت۔بلوچستان یوتھ پالیسی 2021 کی تشکیل۔ضلعی سطح پر 12 چھوٹے سپورٹس کمپلیکسز کا قیام۔33 ضلعی دارلحکومتوں میں سپورٹس جدید اسپورٹس کمپلیکسز کا قیام۔میونسپل سطح پر 61 فٹ سال گرائونڈز کا قیام۔بین الاقوامی بلوچستان اسکواش لیگ کا کامیاب انعقاد کر کے وزارت کھیل و نوجوانان میں بھی اپنی صلاحیتیوں کا لوہا منوایا۔
موسم کے اعتبار سے غیر متوقع حالات دیکھنے والے صوبہ بلوچستان کو اکثر و بیشترخشک سالی اور سیلاب جیسے خطرات کا سامنا رہتا ہے جس کے اثرات کو کم کرنے کیلئے سابق وزیرِ اعلیٰ جام کمال کی سرپرستی میں ولان ڈیم، نولونگ ڈیم، غروکی ڈیم، سرہ خولہ ڈیم اور شنزنی ڈیم کی تشکیل۔جدید مانیٹرنگ آلات کی تنصیب۔کچی کینال کی واپڈا سے واپس صوبائی حکومت کو سپردگی اور سیلابی پلان مینیجمنٹ ایکٹ 2021 کی منظوری جیسے منصوبہ جات قابل ذکر ہیں۔ جام کمال کی صوبے کیلئے ترقی پسندانہ سوچ کا سفر یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ شہری منصوبہ بندی اور ترقی جیسے شعبے کی بات کی جائے تو ماسٹر پلان آف کوئٹہ۔ 31 ضلعی دارالحکومتوں کے لیے ماسٹر پلان۔ بلوچستان ہائوسنگ اینڈ پلاننگ اتھارٹی ایکٹ 2020۔
بلوچستان مجموعی ترقی کی از سر نو پلاننگ اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت ترقیاتی منصوبے بھی جام کمال کی ترقی پسندانہ سوچ کی عکاس ہے۔ ترقی کے اس سفر میں رخنہ ڈالنے والوں کو سوچنا ہوگا کہ وْہ بلوچستان کے عوام کے مفادات کا تحفظ کررہے ہیں یا ذاتی مفادات کا کیونکہ بلوچستان کی محرومیوں کا مستقل علاج سیاسی اور جمہوری فریم ورک میں رہ کر ہی تلاش کیا جاسکتا ہے نا کہ پیٹھ پیچھے چْھرا گھونپ کر۔
Rehmat ullah kakar
No doubt EX CM was a great chief minister of balochistan