جس کسی نے فکشن کے متعلق یہ تصور بنا رکھا ہے کہ فکشن وقت گزاری اور وقت کا ضیاع ہے تو ’’دو نیم اپریل‘‘ اس کی اس تنگ نظری کو پاش پاش کرنے کی قوت رکھتی ہے بلکہ سوچ کا وہ دھارا فراہم کرتی ہے کہ کوئی بھی نان فکشن آپ کو یہ سب کچھ نہ کروا سکے ماسوائے کسی بہترین سفرنامہ کے۔
دو نیم اپریل البانیہ کی بلوچستانی تصویر کیوں؟ وہ اس لیے کہ اسے پڑھتے ہوئے آپ کو بلوچستان کے قبائل یاد آئیں گے، ہر اس جگہ جہاں قبائل ہیں آپ کو یہ روایات نظر آئیں گی، گو ہم جنوبی بلوچستان کے لوگ یہ سمجھنے میں مشکل محسوس کریں لیکن قبائلی سماج میں رہنے والا کوئی بھی شخص اس کتاب کو خود پر نازل ہوا محسوس کرسکتا ہے۔
دو نیم اپریل اسماعیل کادارے کی لکھی ہوئی کتاب ہے جس میں یوں لگتا ہے،جنگل ہے،سردی ہے ، آگ کے گرد بیٹھا ایک گروہ ہے، جس میں آپ قاری بھی شامل ہیں اور اسماعیل کادارے کی جانب متوجہ ہے اور وہ کہہ رہے ہیں،
جورگ نام کا ایک نوجوان برف سے ڈکھی ایک چھوٹی سی ابھری ہوئی چٹان کے پیچھے بیٹھے ہیں اور منتظر ہیں اپنے بھائی کے قاتل کا، جو اسی وقت کندھے پہ رائفل لیے نمودار ہوتے ہیں، جورگ نشانہ باندھتا ہے اور سوچتا ہے کہ گولی ایسی جگہ لگے کہ وہ مرجائے ورنہ زخموں کی صورت میں قانون میں ہے کہ جورگ کو جرمانہ ادا کرنا پڑے گا،اور قتل کی صورت میں بدلہ چکانا پڑے گا۔
جورگ اسے قتل کرتا ہے اور کچھ لمحوں بعد گاؤں میں بات پھیلائی جاتی ہے جورگ نے اپنا فرض ادا کیا، جورگ کی ماں مرے ہوئے بیٹھے کا قمیض اتارتی ہے اور دو مہینے بعد اسے دھوتی ہے، اب جورگ مقتول کے کفن ،دفن میں شریک بھی ہوتا ہے کیونکہ یہ اخلاقی فرض ہے اور اسے معاہدے کے تحت ایک مہینے بعد اسی طرح کرائے کائک خاندان کے کسی بیٹے کے ہاتھوں قتل ہونا ہے۔
یہ غارت گری شروع کیوں ہوئی تھی؟ کیوں کہ ستر سال پہلے ایک دن گاؤں میں مہمان آیا تھا، اور مہمان خدا سمان ہوتا ہے ۔ جب دوسرے دن جورگ کے دادا کے مہمان کو گاؤں سے رخصت کیا جارہا تھا تو گاؤں کے سرحد پہ مہمان کو کوئی گولی مارتا ہے ،اب جب میزبان کے آنکھوں کے سامنے مہمان کو گولی لگے تو بدلہ میزبان کا فرض بنتا ہے، تو بدلے کا یہی رواج جاری ہے.۔
اس کے ساتھ ساتھ ناول کے کچھ اور کردار جن میں ایک مصنف اور اس کی انتہائی خوبصورت بیوی ہنی مون کیلئے اسی علاقے کا رخ کرتے ہیں اور مصنف کی بیوی کا ایک دن جورگ سے سامنا ہوتا ہے تو وہ مقتول سے متعلق سوچ کے ہلکان ہوتی ہے اور سترہ مارچ کو قتل کرنے والا مقتول 17اپریل کو قتل کیا جاتا ہے۔
توہم، اور جہالت کے گرد گھومنے والے ناول میں آپ کو بہت کچھ چونکا دینے والا ملے گا جیسے شادی کا دن کبھی ملتوی نہیں ہوتا، اگر وہ دلہن بستر مرگ پہ ہو شادی کا قافلہ تو پھر بھی نکلتا ہے اور اگر ضروری ہے تو دلہن کو شوہر کے گھر گھسیٹ کر لے جایا جاتا ہے،.اگر گھر میں موت ہوئی ہو تب بھی شادی کا قافلہ نکلتا ہے۔ دلہن جب گھر میں داخل ہوتی ہے تب ہی مردہ فرد رخصت ہوتا ہے، آنسو بہتے ہیں تو دوسری جانب شادیانے بجتے ہیں۔
دو تین واقعات ہیں ایک کو مختصر بیان کرتا چلوں، کہ کسی نے قتل کیا ،مقتول کے ورثاء اسے ڈھونڈ رہے ہیں. قاتل انجانے میں ،پناہ کی خاطر مقتول کے گھر جاتا ہے ، مقتول کا والد اسے مہمان سمجھ کے امان میں لیتا ہے جب مقتول کا بھائی اس کا پیچھا کرکے گھر پہنچتے ہیں تو حیران رہتے ہیں کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ بندوق تانی جاتی ہے کہ والد خبردار کرتے ہیں، بلکہ دوسرے دن مہمان کو تحفہ سمیت رخصت کیا جاتا ہے۔
مہمان بھگوان سے شیطان تب بنتا ہے جب وہ پوچھے کہ کھانے میں کیا پک رہا ہے؟ تب اس کی انتڑیاں نکال دی جاتی ہیں۔
ناول کا ایک خوبصورت پیراگراف ہے کہ ہر ایک کے مقدر میں اپریل(موت کا دن) ہے لیکن اس کا اپریل چن لیا گیا ہے اور یوں جورگ کا اپریل 17اپریل ہوتا ہے اپنے دشمن کے ہاتھوں ایک پراسرار طریقے سے، چونکا دینے والا۔