|

وقتِ اشاعت :   January 23 – 2022

بلوچستان میں یوریا کھاد کی ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کی وجہ سے کھاد کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ دوسری جانب کھاد کی افغانستان اسمگلنگ کے انکشاف نے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان چھوڑدیا۔ بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں کھاد کی مصنوعی قلت کے خلاف دھرنے اور احتجاج پھوٹ پڑے ہیں۔ انتظامیہ نے احتجاج کو روکنے کے لئے بعض علاقوں میں دفعہ 144 نافذ کردی ہے۔ سخت احتجاج کے بعد حکومتی ادارے حرکت میں آگئے۔

مختلف علاقوں میں کھاد کی افغانستان اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد بھاری مقدار میں کھاد برآمد کرلی گئی۔ یوریا کھاد کی قلت نے کاشتکاروں کو پریشان کردیا۔ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں گندم کی بوائی کے وقت کھاد نہ ملنے کے باعث فصل کی پیداوار کم ہونے اور گندم کے بحران سمیت صوبے کی معیشت کو بھی نقصان پہنچنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ضلع نصیر آباد ڈویژن اور دیگر علاقوں کے کسان گندم بوائی کے وقت قلت اور بلیک میں فروخت کی وجہ سے کھاد کی عدم فراہمی کے باعث فصل کی کم پیداوار سے پریشان ہیں۔ کسانوں کے مطابق گندم کی تیار فصل کو آخری کھاد کی ضرورت ہے لیکن مارکیٹ میں کھاد دستیاب ہی نہیں ہے۔کھاد بلیک میں مل رہی ہے، جو اس کا سرکاری ریٹ ہے وہ ہے تو 1768 روپے لیکن کسانوں کو 3200 روپے تک بلیک میں مل رہی ہے۔ چھوٹے کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ ہزار ایکڑ والے کاشتکاروں کو تو کھاد مل جاتی ہے۔ لیکن چھوٹے کسانوں کو نہیں مل رہی۔ کھاد نہ ملنے کی وجہ سے گندم کی پیداوار کم ہوگی اور آنے والے دنوں میں خوراک کا بحران پیدا ہو گا۔

دوسری جانب یوریا کھاد کوافغانستان اسمگل کیا جارہا ہے جس سے کھاد کے بحران میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق ڈیرہ اللہ یار پولیس نے ایک کاروائی کے دوران یوریا کھاد سے بھرے دو ٹرالر ،7 ٹرکیں تحویل میں لے کر 6000کھاد کی بوریاں افغانستان اسمگل کرنے کے منصوبے کو ناکام بناتے ہوئے 9ڈرائیوروں کو بھی گرفتار کرلیا۔

کسان یوریا کھاد کی ذخیرہ اندوزی، اسمگلنگ اور بلیک مارکیٹنگ کے خلاف احتجاج کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ضلع جعفرآباد میں یوریا کھادکی قلت پرکاشت کاروں نے احتجاج کیا اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ یہ احتجاج نیشنل پارٹی ضلع جعفرآباد کے زیراہتمام کیاگیا۔ جس میں کسان تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور زراعت کے شعبے سے وابستہ افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ صحبت پور چوک جھٹ پٹ پر دھرنا دیاگیا۔ محکمہ زراعت، ضلعی انتظامیہ اور کھاد مافیا کے خلاف نعرے بازی کی گئی اور ڈپٹی کمشنر جعفرآباد کے تبادلے کا مطالبہ کیاگیا۔

احتجاجی مظاہرے سے نیشنل پارٹی کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری عبدالرسول بلوچ اور جاموٹ قومی موومنٹ کے محمد عالم کھرل اور دیگر نے خطاب کیا اور کہاکہ نصیرآباد ریجن بلوچستان کاگرین بیلٹ ہے۔ اس گرین بیلٹ کو ایک سازش کے تحت بنجر بنانے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ اس سازش میں یہاں کے سلیکٹڈ موروثی جاگیردار نمائندے اور ان کی آشیرواد سے آنے والی افسر شاہی اور ان کے پروردہ مختلف مافیاز شریک ہیں۔

اگر دیکھا جائے نصیر آباد ریجن ایک زرعی خطہ ہے جس کی زراعت کا انحصار پٹ فیڈر کینال پرہے۔ پٹ فیڈرکینال سے ایری گیشن حکام کی سرپرستی میں پانی بھی چوری ہورہا ہے جس کی وجہ سے پانی کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ پانی کی کمی کی وجہ سے زمینداروں اور کسانوں کے کروڑوں روپے کی فصلیں خشک ہونے لگی ہیں۔ پانی کی عدم دستیابی پرقحط اور خشک سالی کی صورتحال ہے جس کے باعث نہ صرف فصلیں بلکہ مال مویشی بھی مرنے لگے ہیں۔ مقامی لوگ معاشی مسائل سے دوچار ہونے کے باعث بڑے پیمانے پر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ سماجی و سیاسی حلقے پٹ فیڈر کینال میں پانی کی کمی کو کسانوں کا معاشی قتل قرار دیتے ہیں اور اس کی ذمہ دار بلوچستان حکومت اور نصیر آباد کے منتخب نمائندوں کوبھی ٹھہراتے ہیں۔

کینال میں اگر چند قطرے پانی بھی آتا ہے تو وہ گندہ ہوچکا ہوتا ہے۔ کیونکہ کشمور سندھ کے مقام پر سیوریج سسٹم کا گندہ پانی بھی پٹ فیڈر کینال میں چھوڑا جاتا ہے۔ بلوچستان کے لاکھوں لوگ پٹ فیڈر کے پانی کو پینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔جبکہ کشمورسے شامل سیوریج کے گندے پانی سے پٹ فیڈر کینال کا پانی زہریلا ہوجاتا ہے جس سے علاقے میں ہیپاٹائٹس بی اور سی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہاں صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی کا ہے۔

عوامی نمائندوں کا تعلق حکمران جماعت سے ہے۔ حکومت میں ہوتے ہوئے بھی منتخب نمائندوں کی کارکردگی صفر ہے۔ تبدیلی سرکار نے ساڑھے تین سال میں ہر ادارے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ بلوچستان کے وسائل خصوصاً” نصیرآباد ریجن کی زراعت کو راتوں رات بننے والی “باپ ” پارٹی نے تباہی کے کنارے پہنچادیا ہے۔ تبدیلی سرکار اپنے ساتھ بربادیاں بھی لائی ہے۔ کوئی بھی اداراہ یا محکمہ صحیح سلامت نہیں رہا۔ ہر طرف کرپشن اور اقرباپروری ہے۔ غریب کسانوں کو مافیاز کے رحم و کرم پر چھوڑدیاگیا ہے۔ کبھی پٹرول بحران، کبھی چینی بحران، کبھی آٹا بحران، کبھی پانی کی مصنوعی قلت تو کبھی زرعی ادویات و کھاد کا مصنوعی بحران پیدا کیا جاتا ہے۔ ان مصنوعی بحرانوں کی آڑ میں مافیاز نے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے۔

جام حکومت کے خاتمے اور قدوس حکومت کے آنے سے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید گھمبیر ہوگئے ہیں۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ وہ اس بربادی میں برابر کا حصہ دار ہے۔ اس لئے وہ خاموش ہیں۔ کینالوں کی صفائی کے نام پر کروڑوں روپے ہوا میں اڑادیئے گئے۔ متعلقہ حکام نے بھل صفائی و مرمت کے پیسے کھا کر پٹ فیڈر، کیرتھر اور شاہی واہ کو تباہ کیا ہے۔ ٹڈی دل کے نقصانات کے پیسے کو حقیقی کسانوں میں تقسیم کرنے کے بجائے آپس میں بانٹ لیا گیا۔ زرعی پانی کو نان کمانڈ ایریا کو بیچا ہے۔ اب ربیع کے فصل خصوصاً گندم کے لئے یوریا کھاد کا مصنوعی بحران بنا کر کاشتکاروں کو لوٹا جارہا ہے۔

سرکاری اعداد شمار کے مطابق ملک میں اگرچہ زراعت کے لیے سرکاری امداد مجموعی طور پر 1.3 بلین امریکی ڈالر تھی۔ لیکن گزشتہ چند سالوں میں ترقی کی کم شرح اور غیر یقینی صورت حال نے اس شعبے کو پسماندہ بنادیا جو ملازمت کا 40فیصد فراہم کرتا ہے۔
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں چھوٹے پیمانے کے کسانوں کو بااختیار بنانے اور مارکیٹوں کو مستحکم بنانے کی تلاش و جستجو کا پروگرام مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ اور 5 سال سے کم عمر کے تقریباً40فیصد بچوں میں نشوونما کی کمی ہے۔ وہاں پائیدار ترقی بڑھانے اور ناقص غذائیت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے تبدیلی کا عمل انتہائی ضروری ہے۔