|

وقتِ اشاعت :   January 29 – 2022

بلوچ طلبا کے لئے پنجاب نوگوایریا بن چکا ہے۔ انہیں گرفتار کرلیا جاتاہے۔ ان پر دہشت گردی کے مقدمات بنائے جاتے ہیں۔ انہیں ہاسٹلز سے لاپتہ کردیا جاتا ہے۔ کوئی سننے والا نہیں ہے۔ سب کی زبان پر تالے لگے ہوئے ہیں۔ ہم نے یہ دیکھا ہے کہ ہر سال دو یا تین دفعہ پنجاب کی یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم بلوچ طلبا کو انتظامیہ کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ان کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔ دوسری جانب اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کی جانب سے بلوچ طلبا کو تنگ کیا جاتا ہے۔ انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان تمام واقعات میں جمعیت کو انتظامیہ کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ انہیں مکمل چھوٹ دی جاتی ہے کہ وہ بلوچ طلبا کا ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے استقبال کریں۔

مصیبت یہ ہے کہ ہر بلوچ چاہے وہ طالبعلم کیوں نہ ہوں۔ انہیں دہشتگرد سمجھا جاتا ہے۔ جس کی مثال کچھ یوں یہ ہے۔ انارکلی بازار میں ایک دھماکے کے بعد پولیس نے لاہور یونیورسٹی میں زیر تعلیم بلوچ اور پشتون طلبا پر تشدد کیااور ان کے کمروں پر چھاپے مارے۔ لاہور انتظامیہ نے جمعیت کی شکایت پر بلوچ اور پشتون طلبہ کے کمروں میں گھس کر انہیں ہراساں کیا۔ اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ پولیس نے یونیورسٹی ہاسٹل میں طلبا کے کمروں میں گھس کر انہیں نیند سے اٹھایا اور انکے شناختی کارڈز ضبط کرکے انکی تصویریں بنائیں۔ اور یہ تاثر دیا کہ زیرتعلیم یہ طلبا دہشتگرد ہیں۔ اس واقعہ کے بعد طلبا نے سخت احتجاج کیا۔ طلبا نے اس عمل کو انتہائی شرمناک قراردیا۔ اورجمعیت کی ایما پر بلوچ اور پشتون طلبا کے خلاف پولیس گردی کی مذمت کی۔ اس وقت بلوچ طلبا ملک کے کسی بھی جگہ غیر محفوظ ہیں۔

داروں کے ایسی پالیسیوں کی وجہ سے بلوچ طلبا عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ طلبا میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت ایک پالیسی کے تحت بلوچ طلبا کو قلم اور کتاب سے دور رکھنے رکھنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس تعصبانہ رویہ کی وجہ سے طلبا ایک خوف و ڈر کی کیفیت سے گزررہے ہیں۔ وہ ذہنی کوفت کا شکار ہوگئے ہیں۔ دوسری جانب تعلیم کے حوالے سے بلوچستان کا نمبر ایک بار پھر آخری ہے۔ بلوچستان میں 36لاکھ بچوں میں سے صرف 13لاکھ بچے سکول جاتے ہیں۔ اگر بلوچستان کے کالجز اور یونیورسٹیز کی بات کی جائے، تو یہاں پر بھی حالت قابلِ تشویش ہے۔ جن جن مشکلات کا سامنا طلبہ کو کرنا پڑتا ہے اْن میں سب سے بڑا مسئلہ فیسوں میں مسلسل اضافہ، ہاسٹلز کی عدم موجودگی، ٹرانسپورٹ کے مسائل، کیمپس میں سیکیورٹی فورسز کی موجودگی، اساتذہ کی کمی، غیر منظم سمسٹر سسٹم وغیرہ شامل ہیں۔ صوبے میں حالیہ نئے میڈیکل کالجز کے طلبہ مسلسل احتجاج پر ہیں جن کے مطالبات تعلیمی نظام کی ناقص صورتحال کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کی موجودگی سے طلبہ سیاست کو بزورِ طاقت ختم کیا جارہا ہے، جو تعلیمی اداروں میں طلبہ کے مستقبل کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔
بلوچستان میں تعلیمی پسماندگی کی وجہ سے سینکڑوں طالبعلم پنجاب اور دوسرے صوبوں کے تعلیمی اداروں کا رْخ کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے بلوچ طلبا پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ بلوچ طلبا اب یہاں سے گرفتاری کے بعد لاپتہ بھی ہو رہے ہیں۔ بلوچ طلبا کے مطابق لاہور کے دیگر علاقوں میں رہائش پذیر چار بلوچ طالبعلموں کو گرفتاری کے بعد لاپتہ کردیا گیا۔ ، بعدازاں ان میں سے دو کو رہا کردگیا البتہ دو طالب علم ابھی تک غیر قانونی طور پر لاپتہ ہیں جن میں ھوشاپ، کیچ کے رہائشی اور پنجاب کالج کے طالب علم آدم اور عمران شامل ہیں۔
ایک طرف بلوچستان کے تعلیمی اداروں کے احاطوں سے طالبعلموں کی جبری گمشدگی میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے تو دوسری جانب ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی بلوچ طلبہ اِس غیر آئینی عمل کا شکار بنتے جا رہے ہیں، جو کہ اِنتہائی تشویشناک ہے۔ واضح رہے کہ جامعہ بلوچستان کے طالبعلم سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کو دو ماہ قبل جامعہ بلوچستان کے احاطے سے لاپتہ کردیا گیا جس کی وجہ سے جامعہ بلوچستان کو طلبا نے تمام تعلیمی سرگرمیوں کے لئے بند کردیا ہے ان کا کہنا ہے کہ دونوں لاپتہ طلبا کو منظر عام پر لایا جائے۔
دوسری جانب کوئٹہ پریس کلب کے باہر میڈیکل کمیٹی الائنس کی جانب سے احتجاجی کیمپ لگایاگیا۔ احتجاج کرنے والوں کا کہنا ہے کہ کوئٹہ کی اس یخ بستہ سردی میں تین میڈیکل کالجز مکران، جھالاوان اور لورالائی میڈیکل کالجز کے طلبہ اپنے آئینی اور جائز حق کی خاطر آئین کے دائرے میں رہ کر احتجاج کر رہے ہیں لیکن افسوس کہ صوبائی حکومت اور محکمہ صحت کی جانب سے کوئی شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے حکومتِ پنجاب اور وفاقی حکومت سمیت دیگر ملکی اداروں سے اپیل کی کہ لاہور سے لاپتہ ہونے والے بلوچ طلبہ کی بازیابی کو یقینی بنائیں اور اغواء نما گرفتاریوں کے سلسلے کو روکیں۔اس طلبا تشدد اور لاپتہ کے واقعہ کے بعد بلوچستان سے تعلق رکھنے والی قوم پرست رہنماؤں نے پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں پولیس چھاپے، تشدد اور طلبا کی گرفتاریوں کی مذمت کی۔ اور پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بلوچ طلبا کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔