|

وقتِ اشاعت :   February 2 – 2022

اوتھل:  سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے حب ضلع کے قیام کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ حب کو ضلع بنانے کا فیصلہ ہرلحاظ سے ایک نامناسب فیصلہ ہے اس سے قبل سے ہم سے ہمارا ایک حصہ اورماڑہ ہم سے چھینا گیا جو کہ لسبیلہ کا حصہ تھااب پھر لسبیلہ کا بٹوارہ کرکے حب کی صورت میں ایک نیا ضلع بنایا جارہاہے اگر حب کا ضلع بنانا ضروری ہے تو اس کا ایک طریقہ کارہوتاہے جب تک ضلع کے لوگوں اور اس کے نمائندوں کو اعتماد میں لے کرکوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا تو کسی صورت اسکی اجازت نہیں دی جائے گی۔

ان خیالات کا اظہار انہوںنے ڈسٹرکٹ کونسل ہال اوتھل میں جام میرمحمد یوسف کی برسی میں شرکت کے بعد صحافیوں سے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے کیا انہوںنے کہاکہ حب ضلع کے قیام کا فیصلہ صوبائی کابینہ نے اچانک کیا ہے اس حوالے سے مجھے اعتماد میں نہیں لیاگیا کیونکہ میں یہاں کا نمائندہ ہوں مجھے لگتاہے کہ کابینہ میں حب ضلع کا ایجنڈہ راتوں رات رکھاگیا ہے ورنہ ایک پروسس ہوتاہے کہ یہاں سے ڈپٹی کمشنر کی رپورٹ جاتی ہے پھر ڈپٹی کمشنر علاقے کے لوگوں کو بلاکران سے رائے لیتاہے اس طرح سے فیصلہ کیا جاتاہے نہ کہ یکا یک اس طرح کے فیصلے کرکے لوگوں میں ایک بے چینی کی کیفیت پیدا کی جائے انہوںنے کہاکہ میں امیدنہیں کرتاکہ سردار صالح بھوتانی صاحب نے حب ضلع کے قیام کا ایجنڈہ پیش کیا ہوگا۔

کیونکہ وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ لسبیلہ میں ایک درا ڑ ڈالی جائے جواقوام اور انتظامی حوالے سے چیزوںکو نقصان پہنچائے اگر یہ ایجنڈہ سردار صالح محمد بھوتانی نے پیش کیا ہوتا تو وہ ایک لاسی ہونے کی حیثیت سے ہم سے اور علاقائی لوگوں سے ضرور رائے لیتے اگر یہ فیصلہ وزیر اعلیٰ بلوچستان میرقدوس بزنجو نے کیا ہے تو وہ اس کو ہرگز منظور نہ کریں کیونکہ اس کے منفی نتائج سامنے آئیں گے قدوس بزنجو نے اپنی طرف سے کوئی فیصلہ کیا ہے تو وہ اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کریں انہوںنے کہاکہ بلوچستان میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے جس کابس چلتاہے وہ حکومت چلارہاہوتاہے جن کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں وہ بیٹھ کرحکومت چلارہے ہیں جس کی مرضی وہ وزیر اعلیٰ بن کرکا م کررہاہے مجھے وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو پر ترس آتاہے لگتاہے وہ کم وزیر اعلیٰ ہیں اور انکے اردگرد جو لوگ ہیں وہ زیادہ وزیر اعلیٰ ہیں کوئی اپنا ایجنڈہ بھیج دیتاہے کوئی اپنا کام کروا لیتاہے کوئی ٹرانسفرپوسٹنگ کرارہاہے کوئی ہاتھ پکڑکرادھر لے جارہاہے کوئی ادھر اس طرح حکومتیں نہیں چلتیں۔

حکومت کا ایک نقشہ ہوتاہے جام کمال خان نے کہاکہ الحمد اللہ ہم نے ساڑھے تین سال حکومت چلائی ہے ہمارے وزراء وزیر بن کرکام کررہے تھے مشیر مشیر بن کرکام کررہے تھے ہماری حکومت ایک حکومت تھی ایک ڈھنگ تھا ایک تصویر تھی مجال ہے کوئی وزیر اعلیٰ آفس یا وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ کواپنے کسی نام سے استعمال کرنے کی سوچ سکتاتھا اب تو سنا ہے کہ وزیر اعلیٰ ہاوس میں ایک عجیب ماحول ہے کہ ہرکوئی کہتاہے کہ میں وزیر اعلیٰ ہوں بتائیں کیا کروانا ہے کیا کرنا ہے ؟یہ طریقہ تو کسی صورت درست نہیں ہے میں صوبائی کابینہ کے ضلع حب کے قیام کے اعلان کو ہرصورت میں مسترد کرتاہوں اور میں چاہوں گا جو کابینہ کے ابھی منٹس بن رہے ہیں اسے شامل نہ کیا جائے اگر ان منٹس کو شامل کیا گیا تو لسبیلہ میں ایک بہت بڑا احتجاج کیا جائے گا اور ہم انشاء اللہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک اس حوالے سے جائیں گے انہوںنے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ میرے اور بھوتانی برادران کے مابین ایک سیاسی اختلافات ضرورہیں لیکن وہ ذاتیا ت پر نہیں ۔

کیونکہ سردار صالح بھوتانی میرے ساتھ کابینہ کا حصہ رہے ہیں ہاں البتہ درمیان میں کچھ ایسے فیصلے ہوئے جن سے کچھ دوریاں پیداہوئیں اور کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو نہیں چاہتے کہ ہمارے درمیان سیاسی ہم آہنگی ہواگر میں اور سردار صالح بھوتانی ایک اچھے ماحول میں ملکر کام کریں تو لسبیلہ کی ترقی اور لسبیلہ کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکتاہے یہ نہ ہوکہ اس طرح کے قدم اٹھائیں کہ لسبیلہ کا نقصان ہومجھے امیدہے کہ سردار صالح بھوتانی نے حب ضلع کا ایجنڈہ کابینہ میں پیش نہیں کیا ہوگا اس حوالے سے کوئی جلدبازی سے کام نہ لیا جائے اس طرح کے فیصلے کئے گئے تو اسکے خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں کیونکہ لسبیلہ کی نہ صرف ایک سیاسی بلکہ ایک جغرافیائی حیثیت ہے اور وہ حیثیت بطور لسبیلہ ہے نہ کہ اوتھل ،بیلہ اور دریجی کی حیثیت سے ہے لسبیلہ تمام علاقوں کے ساتھ ایک گلدستہ ہے اگر اس گلدستے کو توڑ کر کوئی اورمنصوبے بن رہے ہیں تو ہمیں یہ ہرگز قبول نہیں انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہاکہ اختلافات ہرجگہ ہوتے ہیں۔

بلوچستان عوامی پارٹی میں بھی ہیں یہ سیاست کا ایک حصہ ہیں اس سے پارٹیاں مستحکم ہوتی ہیں یہ پارٹی مزید بہترہوگی اور بہت جلد انشاء اللہ پارٹی میں صدارت کے الیکشن بھی ہونگے پارٹی میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو پارٹی ڈسپلن کی بجائے اپنے مفادات کیلئے کام کررہے ہیں انشاء اللہ انکا قلع قمع کیا جائے گا بلوچستان عوامی پارٹی قائم ہے اور انشاء اللہ بہت اچھے انداز میں لوگ اسکو آگے جاتاہوا دیکھیں گے انہوں نے کہاکہ ملک میں حکومت کرنا کوئی ایشو نہیں ملک میں اچھی گورننس ایک ایشو ہے جب تک حکومت کا گورننس کا ایشو ڈلیوری اور بہتری کی طرف نہیں جاتامسائل بڑھتے جائیں گے میراوزیر اعظم عمران خان اور دیگر اداروں کو یہ مشورہ ہوگا کہ جب تک آپ اپنی مینجمنٹ اور گورننس کو بہتر نہیں کرتے آپ توقع بالکل نہ رکھیں کہ اگلے پانچ سال میں ملک بہتری کی طرف جائے گا ۔