ملک کے ممتاز صحافی صدیق بلوچ کو صرف ایک ملک گیر صحافی کے طور پر نہیں بلکہ تاریخ ساز شخصیت اور عہد کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔برٹش انڈیا کے دور میں 1940 میں کراچی کی قدیم بستی لیاری میں جنم لینے والے صدیق بلوچ بڑے خواب لیکر پیدا ہوئے۔1966 میں کراچی یونیورسٹی سے انہوں نے اکنامکس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ۔صدیق بلوچ نے کم عمری سے ہی سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ انہوں نے بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈینس فیڈریشن( NSF )کے پلیٹ فارم سے ون یونٹ مخالف تحریک میں بھرپور کردار ادا کیا۔
صدیق بلوچ نیشنل عوامی پارٹی( NAP) کے سرگرم کارکن رہے اور اس وقت کے گورنر بلوچستان میر غوث بزنجو کے پریس سیکرٹری بھی رہے۔نیشنل عوامی پارٹی پر عائد پابندی کے بعد صدیق بلوچ نے عوام کے حقوق کی جدوجہد کی آواز بلند کرنے کے لئے صحافت کے میدان میں آنے کا فیصلہ کیا وہ پاکستان کے سب سے بڑے انگریزی اخبار ڈان سے وابستہ رہے اور انہوں بلوچستان کے عوام اور ان کے حقوق اور مسائل کے حل کیلئے اپنی تحریروں کے ذریعے 29 سال تک خدمات انجام دیں اور جب انہوں نے محسوس کیا کہ کسی اور کے اخبار میں وہ بلوچ قوم اور ان کے حقوق کے لیے وہ سب کچھ نہیں کر پارہے تو انہوں نے ڈان کو خیر آباد کہہ کر پہلے کراچی سے انگریزی اخبار سندھ ایکسپریس نکالا لیکن صدیق بلوچ کراچی میں رہ کر وہ سب کچھ نہیں کرسکتے تھے
جو وہ کرنا چاہتے تھے لہذا انہوں نے بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے انگریزی اخبار بلوچستان ایکسپریس نکالنے کا فیصلہ کیا اور مستقل طور پر اپنے بچوں کیساتھ کوئٹہ شفٹ ہوگئے تاکہ واپسی کا راستہ نہ ہو اور مرتے دم تک اپنے اخبار کے ذریعے بلوچستان کے عوام کی جنگ لڑتے رہیں اور ایسا ہی ہوا، وہ زندگی کی آخری سانس تک جہاں ایک طرف کینسر جیسے مرض سے لڑتے رہے تو دوسری طرف انہوں نے تادم مرگ بلوچستان کے حقوق کی جنگ جاری رکھی۔ان کی انہی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔ صدیق بلوچ شاید پاکستان خصوصاً بلوچستان کے واحد صحافی تھے جن کا شمار اکنامکس پولیٹیکل صحافی میں ہوتا ہے۔بلوچستان کے بنیادی مسائل کے حوالے سے ان کی شہرہ آفاق کتاب
ITS POLITICAL ECONOMY OF OF BALOCHISTAN میں انہوں نے بلوچستان کو درپیش معاشی اور سیاسی مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے جو تحریر کیا ہے اس کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد کوئی بھی صاحب اقتدار شخص اگر چاہے تو بلوچستان کے تمام مسائل حل کیے جاسکتے ہیں لیکن شاید وہ ایسا کرنا نہیں چاہتے ۔
صدیق بلوچ نے اپنی اس کتاب میں گوادر کے حوالے سے لکھا ہے کہ گوادر چین کیلئے اہمیت کا حامل نہیں ہے کیونکہ گوادر پورٹ کی 72 میں صرف 3 بھرتیں چین کی کمپنی کے پاس ہیں وہ لکھتے ہیں کہ گوادر سینٹرل ایشیاء کے ممالک اور افغانستان کے انتہائی قریب ہے۔جہاں پر تیل اور گیس کے علاوہ توانائی کے بہت بڑے ذخائر اس خطے میں موجود ہیں اس کے علاوہ گوادر کا سمندری راستہ خطے کا سینٹرل ایشیاء اور خطے درمیاں روابط کا اہم ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ صدیق بلوچ نے اسٹیبلشمنٹ اور مقتدرحلقوں کو خبردار کرتے ہوئے کئی سال پہلے بتادیا تھا کہ افغان مہاجرین نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کیلئے سیکورٹی رسک ہیں۔ مرحوم بزرگ سیاستدان میر غوث بخش بزنجو اور سابق آمر ضیا ء الحق کی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اپنے کالم میں لکھا کہ میرغوث بخش بزنجو نے ضیاء الحق پر واضح کردیا تھا کہ افغانستان میں جنگ میں مصروف روس اور اس کی لال فوج کبھی بھی پاکستان کے اوپر حملہ نہیں کرے گی۔البتہ روس کے خلاف جہاد سے فارغ ہونے کے بعد ان جہادی گروپوں کی بندوقوں کا رخ اسلام آباد کی طرف ہوگا۔پاکستان میں تیزی سے آنے والے افغان مہاجرین پاکستان کی ملکی سلامتی کے لئے کھلا خطرہ ہیں۔لیکن افسوس کہ حکمرانوں نے افغان مہاجرین کے لئے اپنی سرحدیں کھول ان کو پاکستانی علاقوں میں آباد کرکے تاریخ کا بدترین گناہ کیا جس کی ذمہ داری ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے سر ہے۔
صدیق بلوچ چونکہ ماہر معاشیات بھی تھے اس لئے انہوں نے افغانستان سے اسمگل ہوکر آنے والی گاڑیوں کو بلوچستان کی معیشت اور سیاسی حالات کے لئے براشگون قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ کابلی گاڑیاں دراصل دہشت گردوں کے اثاثے ہیں جس سے صرف اور صرف دہشت گردوں اور سہولت کاروں کا فائدہ ہوگا۔
صدیق بلو چ کی سیاسی بصیرت سے شاید بلوچستان کے حکمراں فائدہ نہیں اٹھاسکے یا پھر ان کی راہ میں مجبوریاں حائل تھیں۔انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا کہ وفاق بلوچستان کی ترقی کے لئے اقدامات اس لئے نہیں کرتا وہ سمجھتا ہے کہ وسائل نہ ہونے کے باعث بلوچستان کو اس کا حصہ نہیں مل سکتا ،اب ان اقتدار پر قابض حکمرانوں کو کو ن بتائے گا کہ وسائل تو بلوچستان میں موجود ہیں لیکن اس پر قابض کوئی اور ہے اور یہی تو وہ جنگ ہے جو نسل در نسل بلوچستان میں چلی آرہی ہے ان کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری بلوچستان کے عوام کی مدد کرنا چاہتے تھے لیکن اسٹیبلشمنٹ اور وفاقی بیورو کریسی اس کے حق میں نہیں تھے تاہم حقوق بلوچستان پیکج کے ذریعے بلوچستان کے عوام کی اشک شوئی کرنے کی کوشش کی گئی تاہم یہ پیکج بھی دیگر کی طرح کاغذوں میں ہی موجود ہے،جس طرح گوادرپورٹ حکومت بلو چستان کے پاس ہے لیکن اس کے پاس ایک بھی اختیار نہیں ہے۔میں نے صدیق بلوچ کی کتاب میں سے چند حوالہ جات اس لئے دیئے ہیں کہ بلوچستان کی نوجوان نسل اس بات کے گواہ رہیں کہ صدیق بلوچ نے بلوچستان کی آواز کو اپنی کتاب میں رکھا ہوا ہے اس کو کھول کر بلند کرنا اب عوام کی ذمہ داری ہے۔
صدیق بلوچ سے میرا تعلق ایک نسل کا نہیں ہے وہ میرے مرحوم والد جان محمد بلوچ جو فٹبال کے شہرت یافتہ ریفری تھے ان کے بھی دوست تھے۔کوئٹہ سے کراچی آتے ہوئے ایئرپورٹ کے لاؤنج اور پرواز کے دوران اور کراچی پریس کلب کی نشستوں میں انہوں نے بلوچستان کو درپیش مسائل اور آنے والے سیاسی اور معاشی حالات کے بارے میں جو پیش گوئی کی تھیں وہ آج بالکل درست ثابت ہورہی ہیں۔
اکبر بگٹی اور جنرل مشرف کی جاری جنگ کے حوالے سے وہ بہت پریشان تھے ان کا کہنا تھا کہ جنرل مشرف طاقت کے نشے میں مست ہے جبکہ اکبر بگٹی عمر کے آخری حصہ میں شہادت حاصل کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن اس کے بعد بلوچستان انتہائی تباہ حالی کا باعث بنے گا۔وہ بلوچستان کے معاشی اور سیاسی حالات کو ایک دوسرے سے منسلک سمجھتے تھے کیوں کہ وہ کہتے تھے کہ اگر بلوچستان کے معاشی حالات ٹھیک نہ ہوئے تو بلوچستان کبھی خوشحال نہیں ہوسکتا۔صدیق بلوچ نے بلوچستان ایکسپریس کا جو پودا اپنے بچوں عارف بلوچ ، آصف بلوچ اور ظفر بلوچ کے ساتھ مل کر لگایا تھا وہ آج تناور درخت بن چکا ہے۔صدیق بلوچ کے بعد اس کی دیکھ بھال ان کے قابل بچوں کے ہاتھوں میں ہے۔صدیق بلوچ کی وفات سے ان کا جسم اس دنیا میں نہیں ہے لیکن ان کی شخصیت اور عہد رہتی دنیا تک موجود رہے گا۔