|

وقتِ اشاعت :   February 7 – 2022

تحریر؛۔ منیر احمد جان
جناب صدیق بلوچ جنھیں ہم پیار اور احترام کے ساتھ لالا کہ کر مخاطب ہوتے علاوہ سینکڑوں افراد کے میری ذات کے حوالے سے انتہائی اہمیت رکتھے ہیں۔ چند روز قبل لالا کے چھوٹے فرزند محمد صادق (سنی ماما) نے کال کرکے اطلاع دی کہ چھ فروری 2022ء بروز اتوار بلوچی اکیڈمی میں لالا کی چوتھی برسی کی مناسب سے ایک نشست ہوگی جس میں مجھے شرکت کرنی ہوگی۔ افسوس اسلام آباد میں نجی مصروفیات کی وجہ سے میں شرکت نہیں کرسکا۔
لالا سے مجھ سمیت بہت سے نوجوانوں نے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ زمانہ طالبعلمی میں ہم وقتاً فوقتاً لالا کی مجلس سے فیضیاب ہوتے یا اکثر بی ایس او کی پریس ریلیز اخبارات میں چھاپنے کے حوالے سے ڈان کراچی آفس میں چلے جاتے تو لالا سے مختصر سی ملاقات بھی ہو جاتی۔
لالا کی شخصیت اور سحافتی مقام اور مرتبے کے حوالے سے دو رائے نہیں ہوسکتے۔ لالا نے ڈان سے ریٹائرمنٹ کے بعد جب اپنا انگریزی اخبار سندھ ایکسپریس کے نام سے ناصر بروہی صاحب کے اشتراک سے کراچی میں شروع کیا تو لالا سے ملاقاتوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ وہ یوں کہ ان دنوں خضدار میں بطور ڈویڑنل انفارمیشن آفیسر قلات ڈویژن میرا تبادلہ ہوگیا اور اکثر صوبائی وزراء کے ضلع لسبیلہ (خصوصاً حب) کے دوروں کی سرکاری کوریج کے سلسلے میں ہماری ٹیم (میں اور فوٹوگرافر) بھی ساتھ ہوتی تھی۔ ان دنوں انٹرنیٹ کا تصور نہیں تھا جبکہ فیکس کی سہولت بھی مخصوص مقامات پر دستیاب ہوا کرتی تھی۔ گویا اس مشکل کا حل ہم نے سندھ ایکسپریس کے دفتر میں ڈھونڈا جہاں پر بیٹھ کر ہم نہ صرف ‘‘خبرنامہ’’ بناتے بلکہ فیکس اور ٹیلیفون کے ساتھ ساتھ مفت کی چائے بھی مل جاتی۔
بعد میں لالا کوئٹہ آگئے اور بلوچستان ایکسپریس اخبار نکالنا شروع کردیا۔ اس دوران میرا تبادلہ بھی ڈی پی آر آفس کوئٹہ میں ہوگیا۔ بلوچستان ایکسپریس کا دفتر سورج گنج بازار میں ایک بلڈنگ کے بالائی منزل پر ایک ہال کی شکل میں قائم تھا۔ لالا نے مجھے آفر دی کہ میں ان کے ساتھ دفتری اوقات کے بعد کام کروں جو میں نے ایک اعزاز سمجھ کر قبول کیا۔
سرکاری خبریں بنانا اور جاری کرنا اور کسی انگریزی روزنامے میں بطور ایڈیٹر کام کرنا دو مختلف تجربے ثابت ہوئے۔ البتہ لالا کی رہنمائی میں بہت جلد میں اخباری معاملات کو سمجھنے لگا۔ سرکاری خبروں کا انگریزی ترجمہ، علاقائی، ملکی اور بین الاقوامی خبروں کا چناؤ اور یہاں تک کہ لیڈ اسٹوری وغیرہ کا اختیار بھی لالا نے مجھے دیدیا۔ بلوچستان ایکسپریس میں تمام جملہ اسٹاف ایک فیملی کی طرح کام کرتے تھے رات کا کھانے کا انتظام اور وقتاً فوقتاً چائے کی گرم پیالی یہ سب لالا مہیا کرتے تھے۔
اس تمام عرصہ میں لالا اس بات کو یقینی بناتے کہ اسٹاف پر کام کا دباؤ نہ بڑھے اور وہ بذات خود ٹیم لیڈر کی شکل میں موجود رہتے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام نشیب و فراز کے باوجود لالا کی ٹیم کے ابتدائی کارکنان اب بھی روزنامہ آزادی اور روزنامہ بلوچستان ایکسپریس سے جڑے ہوئے ہیں۔
لالا صدیق بلوچ نے صوبہ بلوچستان میں صحافت کے جس پودے کی آبیاری کی وہ آج ایک سایہ دار شجر کی صورت میں قائم ہے۔ لالا صدیق نے جرنلزم کو بطور پیشہ نہیں بلکہ ایک مقدس مشن سمجھ کر جدوجہد جاری رکھی۔ ہم نے لالا سے بہت کچھ سیکھا اور ان کی روایات کو آگے بڑھانے میں آج کے بہت سے نوجوان ملک اور بیرون ملک اس کو کام بڑھا رہے ہیں۔
زندگی کے آخری چند سالوں میں جناب صدیق بلوچ بیماری کا شکار ہوئے لیکن اس کے باوجود وہ آخری وقت تک اپنی صحافتی ذمہ داریاں کما حقہ ادا کرتے رہے یہاں تک کہ وہ دوران سفر بھی پہلی فرصت میں لیپ ٹاپ کھول کر ایڈیٹوریل لکھتے اور کوئٹہ ای میل کر دیتے۔
میں امید کرتا ہوں کہ لالا کے فرزندگان اپنے والد کے قائم کیے ہوے ادارے کو اسی شان اور اسی احترام کے ساتھ ترقی کی جانب بڑھائیں گے۔