|

وقتِ اشاعت :   February 17 – 2022

کوئٹہ : بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں سیاسی آوازوں کو نشانہ بناکر پرامن سیاسی جدوجہد میں رکاوٹیں کھڑی کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ انھوں نے کہا پرامن احتجاج ہر شہری کا بنیادی حقوق میں سے ایک ہے لیکن بدقسمتی سے حکمران بلوچستان میں ہر جمہوری عمل کو بزور قوت کچلنے کی تسلسل کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

ترجمان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ گزشتہ سال جون میں لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کیلئے ایک پرامن احتجاجی ریلی کو جواز بناکر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ، وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما غلام نبی مری، حاجی لشکری رئیسانی اور تنظیم کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری بالاچ قادر سمیت دیگر طلباء و سیاسی رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ 8 جون 2021 کی ریلی کو جواز بناکر 8 مہینوں بعد ایف آئی آر کا منظر عام پہ آنا اس بات پر تصدیق ثبت کرتی ہے کہ بلوچستان کا ہر سیاسی جہد کار کو کسی صورت حراساں کیا جاسکتا ہے

چاہے وہ کتنا ہی پرامن جمہوری طرز کا سیاسی عمل ہو۔ترجمان نے کہا کہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پچھلے دو دہائیوں سے بلوچستان آگ و خون کی لپیٹ میں رہا ہے لیکن اپنی پالیسیوں کو درست کرنے کے بجائے سزائیں بلوچ عوام کو دی جارہی ہیں۔ بلوچستان میں وفاقی توسیع پسندانہ اپروچ یہاں کے عوام میں احساس محرومی کا باعث ہے جس کے خلاف ہمیشہ بلوچ قوم نے اپنی بساط کے مطابق آواز بلند کی ہے لیکن اس کے باوجود اپنے پالیسیوں میں تبدیلی لانے کے بجائے قصور وارو بلوچ قوم کو ٹھرایا جارہا ہے۔

ترجمان نے بیان کے آخر میں کہا اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے بلوچستان کے پرامن جدوجہد کو کسی صورت مرعوب نہیں کرسکتیں بلکہ ناانصافی کے خلاف عوامی آگاہی کا باعث بنتے ہیں اور ایک بار پھر واضح کرتے ہیں بلوچ قوم کے خلاف کسی بھی بلوچ دشمن اقدامات کی نفی پرامن جدوجہد کی طرز میں جاری رہے گی۔ انھوں نے حکام سے ایف آئی آر کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پر امن جدوجہد میں اگر اس طرح روڑے اٹکانے کا سلسلہ نہ رکا تو اس کے مزید خطرناک نتائج مرتب ہوں گے جس کا خمیازہ بھگتنا مشکل ہو جائے گا۔