|

وقتِ اشاعت :   February 22 – 2022

پاکستان سمیت دنیا بھر میں صنفی مساوات کی بات بڑے تواتر اور انہماک سے کی جاتی رہی ہے،حقوق نسواں اور انسانی حقوق سے متعلق سیمینار اور آگاہی فراہم کرنے کیلئے ٹریننگ اور مجالس کا باقاعدگی سے انعقاد بھی کیا جاتا ہے لیکن باوجود اس کے خواتین پر مظالم ،فرسودہ اور قبیح رسومات ہنوز جاری و ساری ہیں۔ ایسی ہی ایک خطرناک رسم و رواج سیاہ کاری جسے عرف عام میں کاروکاری یاغیرت کے نام پر قتل کہا جاتا ہے۔ بلوچستان کے نصیرآباد ڈویژن جوکہ سندھ سے ملحقہ علاقے پر مشتمل ہے میں خواتین کو اب تک سیاہ کاری کے الزام کے تحت قتل و غارت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے خواتین وبے گناہ بچیوں سمیت بوڑھی خواتین تک پر اس طرح کا شرم ناک الزام لگا کر انہیں بے دردی سے قتل کر دیا جاتا رہا ہے اور قاتلوں کی اکثریت قانون کی گرفت سے آزاد ہی رہتی آ رہی ہے۔

تاہم اگر کچھ طاقتور لوگ جنہیں بااثر لوگوں کی حمایت پر گواہان یا مقتول خاندان اپنے کیس سے دستبردار تک ہو جاتے ہیں جس سے ان سفاک قاتلوں کو ریلیف ملتا ہے اور وہ قانونی طور پر آزاد ہو جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ قبیح اور فرسودہ رسم سندھ اور بلوچستان کی قبائلی روایات کے تحت مسلسل پروان چڑھتی آ رہی ہے۔ سیاہ کاری یا غیرت کے نام پر خواتین کو موت کے گھاٹ اتارنے کی یہ رسم صدیوں پرانی ہے۔ میاں نواز شریف کے دور حکومت اکتوبر 2016ء میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بل منظور کیا گیا تھاجسے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے پیش کیا تھا۔بل کی منظوری کے بعد سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اس پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی تھی، لیکن اس قانون سازی کا بھی آج تک کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوسکاہے۔ آج بھی اسی فرسودہ روایت کے تحت قتل کا سلسلہ جاری ہے۔

اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ دور اور سائنس و ٹیکنالوجی کے زمانے میں داخل ہونے کے باوجود ہمارا معاشرہ ،قرونِ وسطی کے جاگیردارانہ اور سرداری نظام کے مکمل تابع اور زیر اثر دکھائی دیتا ہے۔ عورت فائونڈیشن، شرکت گاہ سمیت دیگر غیر سرکاری اداروں سمیت راقم نے بھی اپنے تئیں اس سلسلے میں جو تحقیق کی ہے، اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ذاتی دشمنی ،جائیدادکے تنازعات ، قرضہ جات سے خلاصی، اسٹیٹس کو، قبائلی عدم برداشت، شادی پر عدم رضا مندی، بے جوڑ شادی و دیگر معاملات کی آڑ میں کسی بھی مرد یاعورت کو سیاہ کاری یا کاروکاری کا الزام لگا کر مجرم قرار دے کر بیدردی سے قتل کر دیا جاتا ہے اور اسی قتل کو قبائلی جرگہ بلاتحقیق مجرم قرار دیکر مقتول کا قتل قبائلی رسم و رواج کے عین مطابق درست قرار دیا جاتا ہے۔

نصیرآباد ڈویژن میں اکثر واقعات جائیداد پر قبضہ کرنے، زمین پرحق ملکیت جتانے،رشتے سے انکار، لڑکی کوپسند کی شادی کرنے پر،لڑکی کے ناجائز تعلقات قائم کرنے سے انکار، بے جوڑ شادی کرانا وغیرہ یا کسی مرد سے دشمنی نکالنے کی خاطر ماں، بیٹی، بہن، بیوی یا کسی اور عورت یا مرد پر سیاہ کاری یا کاروکاری کے جھوٹے الزامات لگا کر انہیں انتہائی سفاکانہ انداز میں قتل کردیا جاتا ہے۔ اس خود ساختہ رسم کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ مقتولین کی میتوں کو بعض اوقات بغیر غسل، بغیر کفن ، اور نمازِجنازہ پڑھائے بغیر درگور یا زمین میں دفن کردیا جاتا ہے۔ اور نہ ہی اس کی فاتحہ خوانی یا تعزیت لی جاتی ہے جبکہ اس طرح کے واقعات میں قتل ہونے والے عورت یا مرد کی آج تک کسی سرکاری ہسپتال میں میڈیکل چیک اپ تک نہیں کی جاتی ہے اور نہ ہی اس پر پولیس یا عدالتیں توجہ دے رہی ہیں۔ میڈیکل چیک اپ سے حقیقت کا پردہ چاک ہو سکتا ہے اور اس سلسلے میں مکمل حقائق کا بھی پتہ چل سکتا ہے کہ واقعی اس الزام میں کتنی حقیقت ہے تاہم آج تک میرے صحافتی تجربے میں کسی بھی مقتول یا مقتولہ کی میڈیکل رپورٹ یا چیک اپ نہیں ہو سکی ہے، آج تک کسی لیڈی ڈاکٹر نے اس طرح کا نہ تو چیک اپ کیا ہے اور نہ ہی کوئی سیمپل لیکر لیبارٹریز بھیجی گئی ہے اور نہ ہی کسی کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا ہے۔اس سلسلے میں میں نے عورت فائونڈیشن کوئٹہ کے ریزڈینٹ ڈائریکٹر علاوہ الدین خلجی سے رابطہ کیا اور ان سے سیاہ کاری کے حوالے سے مزید معلومات حاصل کیں۔ اس موقع پر انہوں نے راقم کو بتایا کہ عورت فائونڈیشن عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کے اعداد و شمار کا تجزیہ اور پالیسی مرتب کرتا ہے۔ عورتوں کے خلاف تشدد ایک خطرناک حد تک عالمی مظہر کا باعث بن رہا ہے۔

جس سے بے شمار عورتوں کی عزت و ناموس متاثر ہو رہی ہے۔ تشدد ایک بہت ہی بڑا صنفی امتیاز ، غیر مساویانہ امتیاز اور معاشرے میں نا ہمواری کا بڑھتا ہو ا ذریعہ بن رہا ہے۔ تشدد کے حوالے سے اعداد و شمار برف پگھلنے کا ایک معمولی ذرہ معلوم ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کی نشاندہی کرنا اور معلومات و مددگار ماحول فراہم کرنا دراصل سماجی دبائو پیدا کرانا ہے۔ عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کے اعداد و شمار مستقبل میں بننے والی پالیسیوں اور قانونی اصلاحات کے سلسلے میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں ، سیاسی جماعتوں اور قانون دانوں کو مصالحتی طریقہ کار، ترقیاتی پالیسیوں کے فریم ورک اور ادارتی نظام کے تحت عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمہ میں مددگار ثابت ہونگے۔ سال 2021 کی رپورٹ کے مطابق پورے بلوچستان میں ہر دوسرے دن ایک عورت قتل یا تشدد کا نشانہ بن جاتی ہے۔ بلوچستان میں پچھلے 12 ماہ کے دوران تشدد کے 129 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ تقریباً تمام واقعات رپورٹ شدہ ہیں۔ ان واقعات میں 57 خواتین اور21 مرد قتل ہوئے جس میں سے 28 خواتین اور 21مرد غیرت کے نام پر قتل ہوئے ،2 عورتوں نے گھریلو حالات سے تنگ آکر خودکشی کی ، 28 خواتین پر گھریلو تشددکیا گیا جبکہ 8 خواتین اغوا ہوئیں، 29 خواتین قتل ہوئیں ،خواتین اور بچوں سے جنسی زیادتی کے 5 واقعات رپورٹ ہوئے، جبکہ ہراسمنٹ کے 8 واقعات رپورٹ ہوئے۔ ان واقعات میں سب سے زیادہ 33 واقعات کوئٹہ میں رپورٹ ہوئے ،جبکہ 30 واقعات نصیرآباد ، 11واقعات مستونگ سے رپورٹ ہوئے ہیں، اس کے علاوہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے 2 واقعات کوئٹہ اور ژوب سے رپورٹ ہوئے ہیں۔عورت فائونڈیشن کی رپورٹ کے مطابق خواتین پر تشدد کے کوئٹہ میں 33 واقعات ،بارکھان میں 2، جعفرآباد میں 7، نصیرآباد میں 30، پشین ،پنجگور، کوہلو، میں ایک ،ایک ، ژوب میں 6، خاران میں ایک ، خضدار میں 6، قلعہ عبداللہ ، سبی ، قلات ، نوشکی ، چاغی ، قلعہ سیف اللہ میں دو ،دو ، مستونگ میں11، لسبیلہ میں 9، ڈیرہ بگٹی ، ہرنائی اور کیچ میں تین، تین واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ بلوچستان کے دو اضلاع جھل مگسی ، لورالائی میں کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا ہے۔ آپ کو بتاتا چلیں کہ ہمارے معاشرے کے بعض رسم و رواج اسلام سے متصادم ہونے کی بناء پر عورتوں کے حقوق کی نفی کرتے ہیں۔خواتین کی حالت زار بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں سیاسی سطح پر مستحکم کیا جائے اور زندگی کے تمام شعبوں میں نمائندگی دی جائے۔

خواتین کے حقوق کی سب سے بڑی گارنٹی انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں رائج قبائلی رسم و رواج کے تحت عورت کو جائیداد یا پراپرٹی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو اس کے حقوق کے برعکس ہے۔ عورت کو واقعی طور پر اس کا مقام دینا مقصود ہو تو انہیں سیاسی ، تعلیمی ، انتظامی اور مالی طور پر مستحکم کرنا ہوگا۔ پچھلے 75 سالوں میں ہم نے عورت کو انسان ہی نہیں سمجھا۔ ان کو ہمارے معاشرے میں طرح طرح کے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جب تک رویوں میں تبدیلی نہیں لائی جائے گی اْس وقت تک عورت کااستحصال ہوتا رہے گا۔ گزشتہ دنوں نصیرآباد کے پسماندہ تحصیل تمبو کے ایک نواحی تحصیل بابا کوٹ میں دو ہفتے سندھ کراچی سے بیاہی گئی 25 سالہ خاتون عابدہ کو اس کے شوہرشاہ میر نے سیاہ کاری ہی کی بھینٹ چڑھا دیا اور اسے قتل کر دیا۔ ظلم تو یہ ہے کہ اس کی لاش تین دن تک سول ہسپتال کے مردہ خانے میں رکھی ہوئی تھی جن کے ورثاء کو کوئی علم تک نہ تھا۔ مذکورہ خاتون کی لاش اصل وارثوں کے بجائے کسی اور کے حوالے کر دیا گیا اور بعد میں ان کے خاندان کو علم ہوا تو وہ نعش لینے پہنچے تو لاش کوئی اور لے گیا تھا۔
سیاہ کاری یا غیرت کے نام پر قتل سب سے زیادہ سندھ کے بالائی اضلاع، پنجاب میں ڈیرہ غازی خان ڈویژن اور کے پی کے میں بھی سخت قبائلی نظام اور رسم و رواج کی وجہ اس طرح کے واقعات رونما ہو رہے ہیں ۔بلوچستان میں سیاہ کاری یا غیرت کے نام پر ہونے والی قتل و غارتگری کے واقعات پرعورت فاوئڈیشن ،سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔جب کہ اکثر تعلیم یافتہ اور اہل دانش اس قبیح اور جاہلانہ رسم اور ناموس کے نام پر قتل و غارت گری کاسلسلہ اور الزامات پر خاندانوں کے خاندان تباہ کرنے والا سلسلہ بھی کبھی ختم ہوگا؟ یا پھر اسی طرح بے گناہ مرد و خواتین سیاہ کاری اور غیرت کے نام پر اور الزامات کے تحت یوں ہی مارے جاتے رہیں گے؟ کیا حکومت اور ریاست اس طرح کے ناحق قتل غیر انسانی سلوک غیر آئینی اقدام اور خلاف شرح رسم پر بھی چپ کا روزہ رکھے گی؟ یا پھر ریاست اس بربریت کے خلاف ایکشن لے گی؟ جبکہ دوسری جانب بلوچستان میں بچیوں کی تعلیم سے محرومی بھی لڑکیوں کی مقدر تباہ کر رہی ہے۔

اول تو ہمارے صوبے میں گرلز اسکولز کی تعداد انتہائی کم ہے بالخصوص اگر لڑکیوں کے لیے اسکولز قائم کر بھی دئیے جاتے ہیں تو وہ اسکولز مقامی وڈیرے کے پالتو جانور باندھنے، مہمان خانہ اور گودام کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں اسی لئے یہ تعلیمی ادارے لڑکیوں کی تعلیم حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بنتے جب کہ صوبہ بلوچستان میں لڑکیوں کے لیے قائم کردہ سرکاری سکول آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور ایک منصوبے کے تحت بلوچستان میں گرلز ایجوکیشن کو زیرو کیا جا رہا ہے تا کہ لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھا جائے اور وہ جاہل مائیں بنیں اور جاہل اولاد ہی پیدا کریں۔ کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ تعلیم یافتہ لڑکی ہی ایک اچھی ماں ثابت ہو تی ہے۔ ہماری حکومتی ارکان اسمبلی خواتین پارلیمینٹرین وفاق اور صوبہ سے گزارش ہے کہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائیں اور خواتین پر مظالم کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے۔ خواتین کے تحفظ کے لیے مناسب قانون سازی کی جائے اور پہلے سے موجود قوانین پر مکمل عملدرآمد کیا جائے تا کہ خواتین معاشرے میں ایک با وقار مقام اور حیثیت حاصل کر سکیں اور ہم بہ حیثیت پاکستانی قوم بین الاقوامی برادری میں ایک اچھی شناخت بنا سکیں، کاش ایسا ہو جائے!