|

وقتِ اشاعت :   February 26 – 2022

ملک میں حکومت اوراپوزیشن دونوں میدان میں دکھائی دے رہے ہیں، بڑا دنگل سج چکا ہے ایک طرف اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک لانے کے لیے مکمل متحرک ہے اور تمام اپوزیشن جماعتوں سمیت حکومتی اتحادیوں کے ساتھ ملاقات اور بیک ڈور رابطے جاری ہیں ۔اپوزیشن کی جانب سے یہ دعویٰ کیاجارہا ہے کہ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کی جانب سے بھی انہیں عدم اعتماد کی تحریک میں ساتھ دینے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے جبکہ چوہدری برادران اور جہانگیر ترین گروپ کے ساتھ مسلسل رابطے اس وقت اپوزیشن کے جاری ہیں ۔دیگر اتحادی اب اندرون خانہ کون کس کے ساتھ ہے یہ عدم اعتماد لانے کے وقت ہی پتہ چل جائے گا۔ دوسری جانب حکومت بھی یہی دعویٰ کررہی ہے کہ ان کے ساتھ اپنے اتحادی تو ہیں ہی ساتھ اپوزیشن ارکان بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں اپوزیشن کے ہاتھ کچھ نہیں لگے ۔شیخ رشید کا کہنا ہے کہ تمام اتحادی اس کے وقت عمران خان کے ساتھ ہیں اورجو بھی وزیراعظم عمران خان کا ساتھ چھوڑے گا وہ پچھتائے گا۔ بہرحال سیاسی گہماگہمی جاری ہے رابطوں اورملاقاتوں کے ساتھ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کی مارچ بھی زور شور سے شروع ہوچکی ہے اب عوام سے رجوع کیاجارہا ہے ۔
عوام کا فیصلہ عام انتخابات میں ہی پتہ چل جائے گا فی الحال عدم اعتماد کی تحریک اہمیت رکھتی ہے۔ گزشتہ روز لاہور میں مسلم لیگ ن کے صدر قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل سے ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک کا اصولی فیصلہ کر چکے ہیںاور تیاری کر رہے ہیں، وقت آنے پر عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دیں گے۔انہوں نے کہا کہ اختر مینگل سے ملاقات ہوئی ہے اور ہم نے ملاقات میں ملکی اور سیاسی صورتحال پر گفتگو کی۔ ملک میں معاشی اور سیاسی صورتحال تشویشناک ہے جبکہ ہم نے آج کی ملاقات میں عدم اعتماد کی تحریک پر بات کی۔شہباز شریف نے کہا کہ چھوٹے صوبوں کے حقوق کی پاسداری کرنی ہو گی ۔قائد حزب اختلاف نے کہا کہ پاکستان سمیت ہر ملک کو اپنے ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات رکھنے چاہیئیں۔ نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ سیاست میں لو اور دو کی بات ہوتی ہے اور مشاورت سے معاملات طے ہوتے ہیں۔اس موقع پر اختر مینگل نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا حصہ ہیں اور ہمیشہ پی ڈی ایم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بلوچستان کے مسائل کو فوری حل کرنا ہو گا ،ہمیں تبدیلی کے نام سے چڑ ہو گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ ہمیشہ سے سیاسی تھا اور طاقت کے زور پر بلوچستان کے مسائل کو حل نہیں کیا جا سکتا۔بہرحال یہ تبدیلی تو چل پڑی ہے مگر کامیابی کے امکانات پر حتمی طورپر کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ سیاسی جوڑتوڑ میں لازمی سی بات ہے کہ اتحادی جماعتوں کے ارکان ہوں یا پھر اپوزیشن کی اپنی جماعتیں وہ اپنے مفادات کو ضرور سامنے رکھیں گی کہ وہ کس حد تک اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ عوامی مسائل اپنی جگہ دہائیوں سے موجود ہیں جنہیں حل کرنے کے لیے کتنی سنجیدگی کس نے دکھائی، تاریخ اس سے بھری پڑی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جہاں مل کر ایک سیاسی نظام کو بہتراندازمیں چلایاجاتاوہاں ہر وقت انتقامی سیاست قومی مفادات پر حاوی رہی ہے جس کے باعث ملکی مسائل اور بحرانات آج بڑے جن بن کر سامنے آئے ہیں۔ اب یہ کہنا کہ ایک سرکار کے جانے اوردوسری کی آمد سے بہتری آئے گی تو اس پر بھی کچھ نہیں کہاجاسکتا۔ خدا کرے جو بھی آئے قوم کے مفاد میں بہتر ثابت ہو۔