تربت: عطا شاد ڈگری کالج تربت میں عطاشادلٹریری سوسائٹی کے زیراہتمام معروف بلوچ ادیب پروفیسر غنی پرواز کے اعزاز میں ‘‘غنی پرواز کافنی سفر’’کے عنوان سے سیمینارکاانعقادکیاگیا۔
سیمینار سے سوشل سائینسزڈین تربت یونیورسٹی وانسٹیوٹ آف بلوچی لینگویج اینڈ کلچر کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹرعبدالصبوربلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غنی پرواز فن افسانہ نگاری کے ذریعے معاشرتی جمود کوتوڑناچاہتے ہیں۔بعض دفعہ اصلاحی نظریہ ان کے فن کاگلاگھونٹ دیتا ہے،نظریہ ان کے کرداروں کا چہرہ مسخ کر دیتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اپنی تمام فنی خامیوں کے باوجود غنی پرواز بلوچی ادب کاسب سے بڑافکشن نگار ہے۔سیمینارسے معروف ادیب و انسانی حقوق کے کارکن پروفسر(ر)غنی پرواز نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ادب دنیاکی تمام علوم کاسرچشمہ ہے،زندہ قومیں اپنے زندہ لوگوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
سیمینار سے معروف محقق یوسف عزیزگچکی،کالج کے پرنسپل پروفیسر امان اللہ بلوچ،پروفیسر طاہر حکیم۔پروفیسرغفورشاد۔پروفیسر ندیم اکرم۔ڈاکٹر سنی پرواز۔مقبول ناصر۔قدیر لقمان اوردیگرنے خطاب کرتے ہو? کہا کہ اس سیمینارکوزندہ پرستی کامظہرقراردیاجاناچاہئے۔غنی پروازکے فن میں تنوع موجود ہے۔وہ اپنے فن کے ذریعے ایک مساوی حقوق کے حامل معاشرے کی تشکیل کا خواہاں ہے۔
مقررین نے کہا کہ غنی پرواز کافن خارجیت پسند جبکہ ان کی زندگی مکمل طور پرائم داخلی پسند ادیب کی سی ہے،وہ مکمل طورپرآئیسولیٹڈزندگی گزارتے آ? ہیں اسی وجہ سے ان کے فن میں مختلف قسم کے تضادات در آتی ہیں۔
مقررین نے مزید کہا کہ غنی پروازکی فن افسانہ نگاری اور اس کے فکشن کے موضوعات پاکستان کی سیاسی تاریخ کے پس منظر میں تشکیل پاتی ہیں اگروہ بلوچ وطن پر اٹھارہ سو انتالیس کے انگریزوں کے حملہ و انیس سو اڑتالیس کے جبری الحاج ہواس کے بین الاقوامی نو آبادیاتی تسلط کے خلاف جدوجہد کے تاریخ کے پس منظر میں رکھ کر دیکھیں توان کی فکشن اورگنک بن جائیگی۔جبکہ عطاشادڈگری کالج تربت کے پرنسپل پروفسرامان اللہ بلوچ نے کالج کی لائبریری غنی پروازکے نام اورآڈیٹوریم پروفیسرغلام رسول خالدکے معنون کیا۔سیمینارکے آخرمیں پروفیسرغنی پروازکوشیلڈپیش کیاگیا۔