|

وقتِ اشاعت :   March 4 – 2022

دو دن سے سوشل میڈیا میں ایک ویڈیو گردش کررہی ہے ویڈیو میں دو،تین ٹرالر سمندر میں محو سفر ہیں۔ویڈیو بنانے والا ماہی گیر کہہ رہا ہے کہ یہ ٹرالر پسنی کے علاقے کپر کے سمندر میں غیر قانونی ٹرالنگ کی غرض سے جارہی ہیں۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ حق دو تحریک کے مسلسل احتجاج اور پسنی میں دیے گئے دھرنے کی وجہ سے ضلع گوادر کے سمندر میں غیرقانونی ٹرالنگ میں کمی آئی تھی اور ابھی پھر سے دوبارہ غیرقانونی ٹرالنگ شروع ہورہی ہے ، لیکن یہ صرف ایک خام خیالی ہے کیونکہ بلوچستان کے سمندر میں غیرقانونی ٹرالنگ حق دو تحریک کے دھرنے اور احتجاج کے دوران بھی جاری رہا ۔پسنی دھرنے کے دوران یہ مافیا ہر رات پسنی کے سمندر میں دیدہ دلیری سے ٹرالنگ کرکے صبح پھر گہرے سمندر کی طرف رْخ کرتے رہے ہیں۔پسنی کی اکثریتی ماہی گیر تقریباً گزشتہ ایک ماہ سے رات کے وقت سمندر نہیں جارہے اور غیرقانونی ٹرالنگ میں ملوث ٹرالر مافیا رات کے وقت سمندر کا بادشاہ بن کر ساری رات ٹرالنگ کررہے ہیں اور صبح صادق 12 ناٹیکل میل کی حدود سے نکل کر گہرے سمندر یا کہ ہفت لار کا رْخ کرتے ہیں۔

گوادر دھرنے اور احتجاج کے بعد حق دو تحریک نے پسنی میں اپنے احتجاج کا دائرہ کار بڑھا دیا ،دو تین جلسوں کے بعد پسنی فش ہاربر اتھارٹی کے احاطے میں پنڈال لگا کر دھرنا دیا گیا لیکن اِس دھرنے میں حق دو تحریک کا ایک نیا مطالبہ سامنے آیا کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے ماہی گیر مقامی مچھلی بیوپاریوں کے کشتیوں کے ناخدا نہیں بن سکتے اْن کا مطالبہ تھا کہ سندھی ماہی گیر صرف خلاصی بن کر پسنی میں ماہی گیری کرسکتے ہیں۔اس دوران مقامی مچھلی بیوپاریوں نے حق دو تحریک کے سربراہ سے ملاقات کی اور اْنھیں بتایا کہ سندھی ماہی گیر بیوپاریوں کے قرضدار ہیں اور دوئم یہ کہ پسنی میں اتنی تعداد میں مقامی ناخدا ماہی گیر موجود نہیں ہیں جو بیوپاریوں کی کشتیاں چلا سکیں۔حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان نے مقامی بیوپاریوں کو بتایا کہ حق دو تحریک کے پاس 200 کے قریب ایسے مقامی ناخداؤں کی فہرست موجود ہے جو مقامی بیوپاریوں کی کشتیاں چلانے کے لیے تیار ہیں، مقامی بیوپاریوں نے مولانا ہدایت الرحمان سے کہا کہ اْنھیں صرف قلیل تعداد میں مقامی ناخدا دیے جائیں تو وہ دوسرے دن سندھی ناخداؤں کو فارغ کردینگے۔لیکن حق دو تحریک مقامی بیوپاریوں کو مقامی ناخدا مہیا کرنے سے قاصر رہی اور یوں یہ مسئلہ تاہنوز وجہ تنازعہ بنی ہوئی ہے۔
سندھی ماہی گیروں کو ناخدا نہ رکھنے اور مقامی ماہی گیروں کو ناخدا رکھنے والی پالیسی کے حوالے سے جب احتجاجی ماہی گیر اور حق دو تحریک کے ذمہ داران سے حال احوال ہوا تو اْن کا کہنا تھا کہ سندھی ماہی گیر اگر ناخدا ہونگے تو وہ رات کے وقت مچھلی کا شکار کرینگے اور مقامی ماہی گیر رات کے اوقات شکار پر نہیں جاسکے گا۔

اْن کا کہنا تھا کہ پسنی کے سمندر میں مچھلی کے شکار کرنے کے وقت اور طریقہ کار مقامی ماہی گیر مقرر کرینگے کہ کس وقت سمندر جانا ہے اور کس دن نہیں جانا ہے اور کس طرح شکار کرنا ہے۔

دوسری جانب واقفان حال کے مطابق حق دو تحریک کے سربراہ کو مشورہ دیاگیا تھا کہ وہ سرکل(گٹ) پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرے ،اِس سے سندھی ماہی گیر خود بہ خود پسنی چھوڑ کر چلے جائینگے اور یہ مسئلہ حل ہوجائے گا کیونکہ سندھی ماہی گیر سرکل(گٹ) کے ذریعے مچھلی کا شکار کرتے ہیں حالانکہ سرکل (گٹ) کے ذریعے مچھلی کا شکار پورے ضلع کے تمام مقامی ماہی گیر کرتے ہیں صرف پسنی میں اِس پر پابندی لگانے کا مقصد بظاہرسندھی ماہی گیروں کو علاقے سے نکالنا تھا۔

غیر جانبدار ماہی گیر( وہ ماہی گیر جو نہ دھرنے کے حق میں تھے اور نہ ہی بیوپاریوں کے حق میں ہیں ) اْن کا کہنا ہے کہ ابھی ماہی گیروں کے شکار کے لیے صرف دو مہینے رہ گئے ہیں اْس کے بعد شکار اس طرح سے نہیں ہوگا جس طرح روان ماہ میں ہوگا۔ لیکن پسنی کے ماہی گیروں نے خود کو کچھ ایسے معاملات میں اْلجھا کر رکھ دیا ہے جن کا حل فوری طور پر ممکن نہیں ہے۔

” پسنی میں سرکلنگ(گٹ) پر پابندی کیوں”

سرکل یا (گٹ) پر پابندی کوئی نئی بات نہیں ہے1971 میں جب فشریز آرڈیننس بنائی گئی تو اْس میں بلوچستان کے سمندری حدود کے اندر سرکل کے ذریعے مچھلی کے شکار پر پابندی عائد کردی گئی۔ اِس کے بعد مزید ترمیم کرکے پلاسٹک جال اور مقامی زبان کی ایک اصطلاح ٹْکری جال پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔ماضی میں پسنی میں ٹکری جال کے مسئلے پر عبداللہ نامی مقامی ماہی گیر کو گہرے سمندر میں قتل کردیاگیا تھا۔ محکمہ فشریز نے پلاسٹک جال پر بھی پابندی عائد کی ہوئی ہے لیکن آج پورے ضلع کے ماہی گیر پلاسٹک جال کے ذریعے مچھلی کا شکار کرتے ہیں، پلاسٹک جال سمندری حیات کے لیے اتنا ہی نقصان دہ ہے جتنا سرکل (گٹ) نقصان پہنچاتا ہے۔

چار دن قبل پسنی اور گوادر کے سمندر کنارے کچھ نایاب کچھوے مردہ حالات میں پائے گئے۔ اِن کچھوئوں کی موت زیادہ تر پلاسٹک کے جال میں پھنسنے کی وجہ سے ہوتی ہے،پسنی کے جزیرہ ہفت لار پر ماہی گیر بڑی تعداد میں اپنے استعمال شدہ پلاسٹک جال پھینک دیتے ہیں جن میں کچھوئوں کے بچے پھنس کر موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

کچھ ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ سرکل (گٹ) پر پابندی حکومت بلوچستان اور محکمہ فشریز کا ایک اہم اقدام ہے جس سے سمندری حیات کی نسل کشی میں کمی واقع ہوگی اور سمندری حیات کو اپنی افزائش نسل بڑھانے کا موقع بھی ملے گا لیکن اْن کا یہ بھی کہنا ہے کہ صرف پسنی سٹی کے ماہی گیروں کے لیے سرکل(گٹ) کرنے پر پابندی پر حیران کن امر ہے۔ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ ضلع کے دوسرے شہروں کے ماہی گیر ابھی بھی سرکل (گٹ) کے ذریعے مچھلی کا شکار کررہے ہیں۔ماہی گیروں کے مطابق ضلع گوادر کے دوسرے شہروں کے علاوہ چْربندن،کپر،کلمت جو کہ پسنی کے قریبی علاقے ہیں وہاں بھی سرکل (گٹ) کے ذریعے مچھلی کا شکار کیا جارہا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ دور میں شکار کا واحد آسان ذریعہ سرکل (گٹ) ہے۔لیکن لگتا ہے حکومت بلوچستان اور محکمہ فشریز کی جانب سے جاری کی گئی نوٹیفکشن پر صرف پسنی کے ماہی گیر عمل کررہے ہیں اور ضلع کے دوسرے ماہی گیر گویا اِس سے لاتعلق ہیں ۔حالانکہ حق دو تحریک نے پورے بلوچستان میں سرکل (گٹ) پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔

حق دو تحریک بات پورے بلوچستان کے سمندر کو بچانے کی کررہی ہے پورے بلوچستان کے ماہی گیروں کو ایک بہتر زندگی دلانے کی بات کررہی ہے لیکن سرکل (گٹ) کے حوالے سے صرف پسنی کے ماہی گیروں نے حق دو تحریک کے حکم پر لبیک کہہ کر قربانی دی، آیا ضلع گوادر کے دوسرے شہروں کے ماہی گیر حق دو تحریک کے اِس فیصلے سے متفق نہیں ہیں۔ دیکھنے میں بھی یہی آرہا ہے کہ حق دو تحریک کی جانب سے دوسرے شہروں کے سمندر کے لیے سرکل(گٹ) کی پابندی پر اِتنا زور نہیں دیا جارہا۔جب پورا سمندر بلوچ کی ملکیت ہے اور اْسے بچانا ہے تو اب یہ حق دو تحریک کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پورے بلوچستان کے سمندر میں سرکل (گٹ) اور پلاسٹک کے جالوں پر پابندی لگانے کے لیے موثر آواز اْٹھائے جس سے ایک دن بقول حق دو تحریک کے سربراہ گور،گیشران ،سفید پاپلیٹ اور مشکا مچھلی سمندری لہروں کے اوپر تیرتے ہوئے ماہی گیروں کے گھروں کی دہلیز پر آجائیںگے۔
ایک ماہی گیر نے بتایا کہ پسنی کے اردگرد کے علاقوں کے ماہی گیر پسنی کے سمندر میں آکر سرکل (گٹ) کرکے مچھلی پکڑ کر چلے جاتے ہیں لیکن اْنھیں کوئی نہیں روک رہا۔ اب یہ محکمہ فشریز بلوچستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ پورے ضلع میں سرکل(گٹ) پر پابندی عائد کرنے میں اپنا کردار ادا کرے،سرکل (گٹ) نہ ہونے سے پورا سمندر آباد ہوگا جس سے ماہی گیر بھی خوشحال ہونگے۔

لیکن لگ یوں رہا ہے کہ صرف پسنی کے ماہی گیروں کو ایک لال بتی کے پیچھے دوڑایا جارہا ہے اور ضلع بھر کے باقی ماہی گیر ”زرد رنگ” کی بتی کے پیچھے چل کر اپنا روزگار کررہے ہیں۔سندھی ماہی گیروں کے نہ ہونے سے متعدد فش کمپنیاں تقریباً تقریبا ًبند ہوچکی ہیں۔ کمپنیاں بند ہونے سے بے روزگاری کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے،جس کے اثرات پورے علاقے پر پڑ رہے ہیں،ایک اندازے کے مطابق حق دو تحریک کے دھرنے کی بعد ڈھائی سو کے قریب ماہی گیری کشتیاں ساحل کنارے کھڑی ہیں اور لگ بھگ تین ہزار کے ماہی گیر بے روزگار ہوچکے ہیں ، کمپنیوں میں کام کرنے والے مزدور علیحدہ بے روزگار ہوچکے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے اِس مسئلے کو سلجھانے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات دیکھنے کو نہیں مل رہے۔

فش کمپنیاں بند ہونے سے پورے علاقے کو نقصان ہورہا ہے اس پر طرہ یہ کہ پسنی سٹی میں بجلی کے بلوں کی آدھی سے زیادہ ریکوری یہی فش کمپنیاں دیتی ہیں جس کی وجہ سے شہر میں لوڈ شیڈنگ میں کمی ہوتی ہے اگر فش کمپنیاں بند ہوجائیں بجلی کے بلوں کی ریکوری نہ ہو تو کیسکو کی جانب سے لوڈ شیڈنگ کے ذریعے پورے شہر کو مفلوج بنادیاجائے گا جس سے شہر بھی متاثر ہوگا اور دوسرے شعبہ کے روزگار سے وابستہ لوگ بھی اس سے شدید متاثر ہونگے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ اِس مسئلے کو سلجھانے کے لیے عملی اقدامات اْٹھائیں اور محکمہ فشریز بلوچستان بھی اس میں کردار ادا کرے، سیاسی پارٹیاں بھی مداخلت کریں دونوں فریقوں کو بٹھائیں اور درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کریں تاکہ لوگوں کے روزگار پر برے اثرات نہ پڑیں،اور حق دو تحریک کے سربراہ بھی اپنے مطالبات اور موقف میں نرمی اور لچک پیدا کریں کیونکہ اِس مسئلے کا حل ضروری ہے ورگرنہ اِس میں پسنی شہر دوبارہ متاثرہوگا جس کا نقصان تمام اسٹیک ہولڈروں کو بھی پہنچ سکتاہے۔