|

وقتِ اشاعت :   March 8 – 2022

خاران: ضلعی آرگنائزر بی این پی خاران حاجی غلام حسین بلوچ ،ڈپٹی آرگنائزر حاجی سمیع اللہ بلوچ ،اراکین آرگنائزنگ کمیٹی حاجی اصغر ملنگزئی ،ندیم احمد سیاپاد ،میر غلام دستگیر مینگل ،میر محمد حسن قمبرانی ،رحمت یلائنزئی ،حاجی حفیظ بلوچ ،میر شاہ حسین مینگل ،میر شبیر احمد بادینی نے اپنے مشترکہ بیان میں اسلام آباد پریس کلب کے سامنے ایم فل اسکالر حفیظ بلوچ و دیگر طلباء کے ماورائے آئین و قانون گمشدگی کے خلاف احتجاج پر بیٹھے طالب علموں پر لاٹھی چارج اور ان پر پولیس کی طرف سے مقدمہ دائر کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بلوچوں کے لئے جمہوری احتجاج کا راستہ بند کیا جا رہا ہے جو کہ ناانصافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جمہوری احتجاج کا راستہ بند کرواکر اہل اقتدار و بااختیار از خود بلوچ عوام کو فریاد پر مجبور کرتے ہوئے غیر جمہوری عمل پر گامزن ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکمران عملی میدان میں قانون و آئین کا مزاق اڑا رہے ہیں پرامن احتجاج ہر کسی کا حق ہے جسکو چھینا نہیں جاتا ،بلوچ طلباء پر تشدد اور ایف آئی آر اندراج ملکی قانون و جمہوری عمل کا مذاق اڑا کر لوگوں کے دل سے قانون کا احترام اور قانون پر اعتماد ختم کروا رہے ہیں ،انہوں نے کہا کہ ایسے منفی ہتھکنڈوں اور مظالم سے مسئلے حل نہیں ہونگے بلکہ مزید بگاڑ کی جانب گامزن ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں بہت سے اور طبقات اور تنظیموں کے احتجاج و مظاہرے ہورہے ہیں مگر صرف بلوچ طلباء کے سر پھاڑ انکو لہولان کر دی گئی اور ان پر جھوٹے مقدمات درج کئے گئے ،انہوں نے کہا کہ ایسے ہتھکنڈوں سے حکمران لوگوں کی آوازیں نہیں دبا سکتے اور نہ ہی مسائل حل کرسکتے ہیں بلکہ مسائل قانون کی حکمرانی اور جمہوری حقوق دینے سے حل ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ظلم، ماروائے آئین و قانون اغوا کاری اور زبردستی لوگوں کے منہ بند کرنے کے تجربے گزشتہ 75 سال سے پوری طرح ناکام ہوچکے ہیں اب بھی کامیاب نہیں ہونگے اور ایسے ہتھکنڈوں سے حق کی خاطر اٹھی آوازیں کبھی نہیں دب جائیگی۔

حاجی غلام حسین بلوچ و دیگر نے کہا کہ حفیظ بلوچ اور دیگر لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے اور اگر حکومت سمجھتی ہے کہ ان پر کوئی جرم بنتا ہے تو قانو ن کے مطابق انکو عدالتوں کے سامنے لائے جائیں اور حکمران اپنے قوانین و نظام انصاف پر اعتماد کریں۔