پاکستان بھر میں اگر کہیں بھرپور فٹبال ہوتا ہے تو وہ شہر کراچی ہے ، لیاری ہو یا ملیر گولیمار ہو یا ماریپور جہاں پورے سال فٹ بال ٹورنامنٹ کا میلہ زور و شور سے جاری و ساری رہتا ہے اور یہ سب کلبس اور ان کے آرگنائزرز اپنے فٹبال لورز دوستوں کی مدد سے اپنی مدد آپ کے تحت منعقد کراتے رہتے ہیں گزشتہ چالیس پینتالیس سالوں سے پاکستان فٹ بال فیڈریشن ہو یا سندھ فٹبال ایسوسی ایشن صرف نام کی حد تک تو موجود رہے ہیں
لیکن ان کی طرف سے ایک فٹبال تک کسی کلب کو نہیں دیا گیا اور ان ہی کلبوں کی وجہ سے فٹبال ابھی تک زندہ ہے۔ کراچی کے حقیقی اسٹیک ہولڈر ناصر کریم بلوچ ، رحیم بخش بلوچ اور شاہد تاج ہیں جو اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے ہمراہ اپنے اپنے ڈسٹرکٹس میں کسی نہ کسی طرح فٹبال چلارہے ہیں۔ کراچی سے وابستہ حقیقی فٹبال لورز کے ذہن میں یہ سوال گردش کرتی ہے جب یہ تینوں حضرات فٹبال کی خدمت کے دعویدار اور مخلص ہے تو وہ کیا عوامل ہے جو انہیں یکجا ہونے سے روک رہی ہے یا درپردہ نادیدہ قوتیں جو اپنے مفادات میں”لڑاؤ اور حکومت کرو” کے تحت کسی طرح ان کو ایک پیج پر ملنے ملانے نہیں دے رہی ہیں ؟۔
اس کی حالیہ مثال ابھی دو تین بڑے ایونٹس میں ہمارے قابل احترام حقیقی فٹبال کے نمائندوں کے آپس کی چپقلش ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکر میں “ہم نہیں تو تم بھی نہیں” کے تحت نان فٹبال بیوروکریٹس ان کے منظور نظر پیداگیروں اور باہر کے لوگوں کو ذمہ داریاں سونپ کر پورے سندھ کے فٹ بال پر مسلط کیا گیا ہے جو ایک قابل مزمت عمل ہے اور ساتھ ہی انکی جو سبکی ہوئی ہے وہ ہمارے لیئے باعث شرم ہے۔ کراچی کے حقیقی فٹبال لورز کھلاڑیوں اور کلبس کی یہ خواہش رہی ہے ہمارے یہ قابل احترام فٹبال کی ہستیاں جو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ہر گراؤنڈ میں موجود فٹبال کے فروغ کے لیئے بغیر کسی لالچ طمع کے دن رات ایک کیئے ہوئے ہیں اپنے اناء کے خول سے نکل کر پرانی باتوں کو دفن کرکے ذاتی پسند ناپسند سے بالا تر ہو کر اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کی خاطر ایک دوسرے کو برداشت کرکے شیر و شکر ہوکر یکجا ہوجائیں واگر نہ یہ شاطر عیار فٹبال کو کمانے کا ذریعہ بنانے والا فٹبال مافیا ٹولہ اپنے مفادات کی خاطر آپ کو صرف گراؤنڈز کی ذمہ داری(چوکیداری)تک ہی محدود کرے گا۔ اس حساس مسئلے پر اچھی طرح سوچ سمجھ کر لائحہ عمل طے کریں ۔”ابھی نہیں کبھی نہیں”۔