|

وقتِ اشاعت :   March 10 – 2022

اولاد ایک نعمت ہے ، جس کے پیدا ہونے کے بعد ماں باپ کی زندگی بدل جاتی ہے ، احساسات تبدیل ہوجاتے ہیں ، انسان میں احساسِ ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ یہ کہ زندگی کا زاویہ ہی بدل جاتا ہے اور سارا محور ہی ایک ننھی سی جان بن جاتی ہے۔ لیکن جو وجود انسان کو زندگی کا احساس دلاکر خود ہر روز درد اور تکلیف میں مبتلا ہو تو سوچو اْن ماں باپ پر کیا گزرتی ہوگی۔ جن کے سامنے اْن کے جگر گوشے ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہوں اور جن کی زندگی دوسروں کی ثواب دید پر ہو ، جو دوسروں کے خون کے عطیات پرزندہ ہوں۔ بہت مشکل ہوتی ہیں اْن خاندانوں کے لئے کہ جو اپنے بچوں کو زندگی دینے کے لئے خون کا عطیہ مانگتے ہیں۔ جی میں اْن بچوں کی بات کررہی ہوں جو تھیلیسیمیا جیسے مرض میں مبتلا ہیں۔ جن کی زندگیاں عام بچوں سے ہٹ کر ہوتی ہیں جن کی جسمانی ساخت عام بچوں سے مختلف ہوجاتی ہے۔ جن کو چھوٹی عمر میں بہت سے تکالیف سے گزرنا پڑتا ہے۔

جن کو مقررہ وقت تک ہر حال میں خون چاہیئے ہوتا ہے۔ جو نرم روئی کی طرح گداز ہوتی ہیں ، جن کی روحیں پاک شفاف ہوتی ہیں، تتلیوں کی پروں کی طرح اتنے نرم و نازک کہ ہوا بھی لگے تو نشان چھوڑ دے ،اْن معصوموں کوہر مقررہ وقت میں خون لگنے کے لئے 3،4 گھنٹے تک تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ بیگ میں بند وہ خون ہی اْس کی زندگی ہے۔ توڑی سی تاخیر بھی اْن پھولوں کو مرجھا سکتی ہے۔ لاک ڈاؤن میں باقی شہروں کی طرح تربت بلوچستان میں بھی اِن پھولوں کو بہت مشکل پیش آئی۔لیکن یہاں “کیچ تھیلیسیمیا کیئر سنٹر” نے بھی اپنا رول پلے کیا اور اِ ن بچوں کی آواز بن گئی۔ اِس حوالے سے میں نے رابطہ کیا “کیچ تھیلیسیمیا کیئر سنٹر” کے فاؤنڈر اینڈ چیئرمین ارشاد عارف سے کہ کیچ میں یہ ادارہ کس طرح تھیلیسمیا میں مبتلا بچوں کی زندگیاں بچانے میں اپنا کردار نبھا رہا ہے۔ اْنہوں نے بتایا کہ ” “کیچ تھیلیسیمیا کیئر سنٹر” گذشتہ دو سالوں سے اِس بیماری میں مبتلا بچوں کو خون لگانے کے ساتھ ساتھ علاج کیا اور سہولیات بھی دے رہا ہے کہ یہ ادارہ اپنی مدد آپ کے تحت بغیر کسی سرکاری فنڈنگ کے مخیر حضرات اور کچھ درد دل رکھنے والے انسانوں کی ڈونیشن سے آگے بڑھ رہا ہے۔

اْنہوں نے بتایا کہ اِس وقت ہمارے پاس 10 سے 15 سال کے 290 بچے جو تشویشناک ہیں رجسٹرڈ ہیں ، جن میں 70فیصدبچے اور 30 فیصدبچیاں ہیں۔ جن کو ہر 15 ، 20 دنوں بعد خون لگتی ہے۔ اگر درمیان میں کوئی انفیکشن وغیرہ ہوگیا تو یہ وقفہ کم ہوکر ایک ہفتہ بھی ہوسکتا ہے۔ اْنہوں نے مزید بتایا کہ ہمارے پاس کیچ ، پنجگور اور گوادر اور تربت بی ایریا سے بچے رجسٹرڈ ہیں۔ اْن سے جب پوچھا گیا کہ کیا کھبی ایسا ہوا ہے کہ بچوں کو خو ن عطیہ کرنے والے ڈونر میسر نہ ہوں؟ تو اْنہوں نے کہا کہ کرونا لااک ڈاؤن کے دنوں مشکلات سے دوچار تھے اور رمضان کے مہینے میں بھی ڈونر کم ہوتے ہیں لیکن ہم اِس حوالے سے مہم چلاتے ہیں تاکہ بچوں کو بروقت خون لگایا جاسکے۔ ابھی حال ہی میں بلیدہ میں ایک روزہ بلڈڈونیشن کیمپ لگایا گیا جس میں 340 بیگز خون اِن بچوں کے لئے عطیہ کئے گئے ہیں جو 45 دنوں کا اسٹاک ہے۔

60 سے زائد لوگوں کو اسٹاک برابر ہونے کی وجہ سے خون کا عطیہ نہیں لیا گیا۔ بلوچستان کی تاریخ میں ایک دن کے دوران خون عطیہ کرنے والوں کا یہ سب سے بڑا ریکارڈ ہے۔ اِس سے پہلے پسنی میں بھی ایک روزہ کیمپ لگایا گیا تھا کہ جس میں 330 بیگز عطیہ کیے گئے تھے۔ ارشاد عارف نے بتایا کہ لوگوٍں میں شعور نہ ہونے کی وجہ سے بچے تھیلیسیمیا جیسی بیماری لے کر پیدا ہوتے ہیں ، ہم اِس حوالے سے شعور اْجاگر کرنے کے لئے لوگوں کی کونسلنگ کررہے ہیں اور سیشنز دے رہے ہیں کہ شادی سے پہلے لڑکا لڑکی کا تھیلیسیما ٹیسٹ ضرور کروائیں۔ اگر میاں بیوی دونوں مائنر ہوں تو بچہمتاثر ہوگا۔ خاندان میں پہلے سے کوئی تھیلیسیما کا مریض ہے تو یہ ٹیسٹ بہت ہی ضروری ہے۔ تبھی اِس کی روک تھام ممکن ہوسکے گی۔ اِس کے علاوہ 15 ہفتوں کے حمل کے دوران Amniocentesis Test سے پتہ چل سکتا ہے کہ مادرِشکم میں پلنے والا بچہ تھیلیسیمیا کا مرض لے کر پیدا ہوگا یا نارمل ہوگا۔ اگر بچہ اِس مرض میں مبتلا ہوکر پیدا ہوگا تو اِس صورت میں اسقاط حمل کرانا چاہیئے۔ یہ ایک مشکل فیصلہ ہے جس کے بارے میں لوگ مختلف رائے رکھتے ہیں ہم نے اِس حوالے سے مختلف مفتی صاحبان سے فتوے بھی لئے ہیں”

سرکاری اعداد و شمار ( پاکستان تھیلیسیمیا سینٹر) کے مطابق پاکستان میں اِس وقت تقریباََ ایک لاکھ سے زائد بچے اِس مرض کا شکار ہیں۔ اور ہر سال تقریباََ پانچ ہزار بچے تھیلیسیمیا کے مرض کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں ، یہ کیوں ہوتا ہے اِس کی وجہ کیا ہے میں نے رابطہ کیا سینئر میڈیکل آفیسر ڈاکٹرمحب اللہ سے تو اْنہوں نے کہا کہ یہ ایک موروثی خون کی بیماری ہے جو اپنے والدین سے جینز کے ذریعے بچوں میں منتقل ہوجاتی ہے، اگر والدین میں سے کسی ایک کو تھیلیسیما مائنر ہو تو بچہ بھی مائنر ہوگا اگر دونوں مائنر ہوں تو اْن کے ملاپ سے پیدا ہونے والا تھیلیسیمیا متاثر ہوگا۔ اگر شادی خاندان میں ہورہی ہے تو ضروری ہے کہ دونوں کا ٹیسٹ کروایا جائے ۔ اگر دونوںمتاثر ہیں تو یہ اِس شادی کو روکنا ہی فائدہ مند ہے ، لیکن کھبی کھبار معاشرتی دباؤ اور سماجی منفی رویوں کی وجہ سے ہم شادی سے پہلے ٹیسٹ کی طرف جاتے ہی نہیں ہیں جن کاخمیازہ آنے والوں نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اور ایسے بچے پیدائش کے چند مہینوں بعد ہی خون کی کمی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اْس کی بقیہ زندگی بلڈ بینک کی محتاج ہوتی ہے۔
اْنہوں نے کہا کہ اِس کے لئے لوگوں میں شعور اْجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اْنہوں نے مزید بتایا کہ یہ جو ہیموگلوبین کا پیدائشی نقص ہے۔ جو یہ تین اقسام پر مشتمل ہے۔

1۔ تھیلیسیمیا مائنر، 2 تھیلیسیمیا انٹر میڈیا ، 3 تھیلیسیمیا میجر۔ جو بچے والدین میں سے ایک سے نارمل اور ایک میں سے ابنارمل جین حاصل کرتے ہیں وہ تھیلیسیمیا مانئر کہلاتے ہیں۔ جو درمیانی قسم ہے وہ انٹرمیڈیا کہلاتی ہے جس میں ہیموگلوبن 7 سے G9 تک رہتی ہے اور میجر کے مقابلے میں اِس مریض کو خون لگوانے کی کم ضرورت پڑتی ہے۔ تیسری قسم میجر کی ہے جو خطرناک ترین ہے۔ اِس مریض کو اگر وقت پر خون نہیں لگوائی جائے تو اْس کی جان کو بھی خطرہ ہوسکتا ہے۔ اْنہوں نے اِس بات پر زور دیا کہ لوگوں میں اِس حوالے سے شعور پیداکیاجائے تاکہ آنے والی نسلیں اِس بیماری سے پاک ہوکر پیدا ہوں۔”

ماہرین کی رائے ایک طرف لیکن ایک خاندان کی رائے ایک طرف کیونکہ ہم اِس ترقی یافتہ دور میں بھی اپنے پرانے خیالات کا سانچہ سنبھال کر بیٹھے ہیں ، جہاں شادی سے پہلے ٹیسٹ کو بہت ہی معیوب اور غیر مناسب سمجھا جاتا ہے ، کیونکہ کچھ علاقوں میں سخت رسم و رواج کی پابندی کرتے ہوئے ایک دفعہ جب رشتہ طے ہوتا ہے تو اْس کو توڑنا ناممکنات میں شمار کیا جاتا ہے، تو یہاں ٹیسٹ کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔ اگر اِس حوالے سے سرکاری سطح پر قانون سازی کی جائے ، اورقانون کے مطابق نکاح رجسٹرار ٹیسٹ کے بغیر نکاح رجسٹرڈ کرے تو اْس پر جرمانہ عائد کیا جائے۔ نکاح نامے میں تھیلیسیمیا ٹیسٹ کے حوالے سے شق رکھی جائے۔ اگر بنا کووڈ ویکسینیشن کارڈ کے کسی ہوٹل یا مال میں جانے کی اجازت نہیں ہے ، اور کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے میں بغیر فیزیکل فیٹنس اور میڈیکل فیٹنس کے بغیر ملازمت کے اہل نہیں پاتے تو پھر بنا تھیلیسیمیا ٹیسٹ کے بغیر شادی کی اجازت کیوں۔ ؟