صوبہ بلوچستان کو اگر ہم دیکھئے تو قدرت نے ہمیں بے پناہ وسائل سے مالامال کیا ہے ،جیسے کہ پانی ،پہاڑ ،چاروں موسم(خزاں ،بہار،گرما،سرما ) اور دیگر بے پناہ احسانات شامل ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اللہ پاک نے ہمیں ایک ایسی نعمت سے بھی مزین کیا ہے کہ میں بذات خود اس نعمت کو تمام نعمتوں سے بڑھ کر سمجھتا ہوں اور وہ ہے عقل اور سوچ۔کیونکہ پاکستان میں مختلف زبانیں ،رنگ ونسل اور مختلف مکاتب فکر کے لوگ موجود ہے ،اس کے ساتھ ساتھ مختلف جگہوں پر مختلف زبانیں بولنے والے ،مختلف رنگ ونسل ،شکل وصورت اور مختلف قسم کے لوگ اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کردیا ،پھر جب انسان کچھ سوچ سمجھنے والے ہو جائے تو ان کے تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ان کے والدین اٹھاتے ہیں اور جب یہ بچہ پانچ سال تک پہنچ جاتا ہے تو پھر والدین (ماں ،باپ ) دونوں کے دل میں اپنے لاڈلا کمسن بچے کو کسی اچھی سے اسکول یا تعلیمی ادارے میں داخل کرانے کیلئے مختلف قسم کے خیالات اور سوچ آتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی ان بچے کے تعلیم کا باقاعدہ عمل شروع ہوجاتا ہے۔
سال دو ہزار سترہ میں ملک بھر میں تعلیم کے حوالے اور اسکولوں میں داخلہ مہم کا آغاز مختلف نعروں سے کیا گیا ہے جس میں گزشتہ دنوں صوبہ بلوچستان کے صوبائی حکومت نے ‘‘ہر بچہ سکول میں ‘‘کے عنوان سے مہم کا آغاز کردیا ہے جس میں بچوں کو اسکولوں میں داخل کرانے پر زور دیا جارہا ہے۔اس مہم کیلئے صوبے سے لیکر یونین کونسل کے سطح پروسیع پیمانے پر تیاریاں کی گئی ہے اور مختلف جگہوں پر بینرز سمیت اخبارات اور سوشل میڈیا میں آگاہی اشتہارات بھی شائع ہوچکی ہے۔
حکومت بلوچستان کی جانب سے یہ مہم قابل تعریف ہے اور یہ مستقبل میں معاشرے کے لئے فائدہ مند ثابت ہو گا۔مگر یہاں پر میں یہ بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ ایک طرف اسکولوں میں داخلوں کے آگاہی مہم بھی اچھی اقدامات ہے مگر ہم بعض جگہوں میں تعلیمی اداروں کے حالت زار کو بہ غور دیکھ لیں تو ہمیں اپنے ارد گرد بہت سارے جگہوں پر ایسی اسکولز بھی ملیں گے کہ وہاں پر بچوں کیلئے اسکولوں میں بنیادی سہولیات ( سکول بلڈنگ، واش رومز،پلے گراونڈ وغیرہ ) تک موجود ہی نہیں ہے۔وہاں پر معاشرے کے مستقبل کو محفوظ بنانے والے بچوں کو سخت مشکلات بھی درپیش ہوتے ہیں۔ان اسکولوں کے حالت زار کے ساتھ ساتھ اسکولوں میں قوم کے معماروں (اساتذہ) کو بھی سخت مشکلات کا سامنا پڑتا ہے اور اساتذہ کیلئے بھی بنیادی سہولیات تک موجود نہیں ہوتے ،جو کہ ‘‘ہر بچہ سکول میں ‘‘کے مہم پر ایک سوالیہ نشان بن سکتا ہے ؟کیونکہ بعض جگہوں پر اسکولوں میں کمسن طلبہ وطالبات سے اساتذہ مختلف قسم کے اپنے ذاتی کام بھی لے رہے ہیں اور یہ نہیں بلکہ اب تو بعض اسکولوں میں طلباء خود اسکول کے چوکیدار ااور سوئیپر بن گئے اور اسکول کے صفائی سمیت اساتذہ کے بچوں کا خیال رکھنا بھی پڑھنے ساتھ ساتھ شامل ہے۔
ایک طرف اگر ہم اسکولوں کو تعمیر کروا رہے ہیں اور دوسری جانب ‘‘ہر بچہ اسکول میں ‘‘کے عنوان سے داخلے مہم کا آغاز کررہے تو یقیناًیہ ایک بہتر اور قابل تعریف امر ہے ،مگر یہاں پر افسوس کا مقام بھی ہے کہ ہمارے بعض جگہوں پر ایسے اسکولز بھی موجود ہے کہ وہ طلباء حکومتی حکام کے انکھوں سے دور ہے اور یہاں پر مجھے ایک بات پر بھی بہت افسوس ہورہا ہے کہ کبھی ہم نے اپنے ان اسکولوں میں ان طالب علموں کے بہتر انداز میں تعلیم وتربیت کیلئے انہیں سہولیات فراہم کی ہے؟ نہیں جی بالکل نہیں کیونکہ آج بھی ایسے اسکولز موجود ہے کہ وہاں پر عجیب قسم کے قوانین نظر آرہے ہیں۔نہ اساتذہ کے تربیت کیلئے کوئی صحیح انداز میں بندوبست ہوں نہ طلبہ وطالبات کے صحیح تعلیم وتربیت اور بہتر نشونما کے وسائل موجود ہے اور پھر اس کا نتیجہ یہ ہتا ہے کہ ہر کوئی کہتا ہے کہ معاشرہ خراب ہوگیا ہے۔ معاشرہ تو تب صحیح اور بہتر ہوگا جب ایک اسکول میں بہتر انداز اور صحیح تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ طلبہ وطالبات کو پڑھایا جائے اور طلباء میں یہ شعور اجاگر کیا جائے کہ وہ اس پر صحیح طریقے سے عمل کرکے ایک پرامن شہری اور معاشرے کا خدمت گاربن جائے۔
حکومت اور صوبائی حکومت اگر اسکول بنانے اور اسکولوں میں داخلے مہم کے ساتھ ساتھ سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے طلباء پر کھڑی نظر رکھیں اور ان کے تعلیم وتربیت کا صحیح انداز سے بندوبست کرے تو آج کے یہ بچے کل کے بہتر مستقبل میں اپنا کردار صحیح طریقے سے ادا کرینگے اور حکومت کے مہم ‘‘ہر بچہ سکول میں ‘‘کا مہم بھی کامیاب ہو جائیں گا۔
ہر بچہ اسکول میں
وقتِ اشاعت : March 11 – 2022