|

وقتِ اشاعت :   March 11 – 2022

ملک میں سیاسی معاملات کشیدگی کی طرف بڑھتے جارہے ہیں جبکہ وکٹوں کا گرنا اور وفاداریاں بھی تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہیں بظاہر حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر برتری کے بلند وبانگ دعوے کررہے ہیں مگر اصل حقائق سے خود بھی لاعلم ہیں کہ عین وقت پر کون کس طرف پلٹا مارے گا، دنگل کے سیاسی پہلوان ذاتی طور پر اب تک یہ طے نہیں کرپارہے کہ انہیں کس طرف جانا ہے ،سب کی نگاہیں ہوا کے رخ کی طرف ہیں مگر کھیل دلچسپ انداز میں جاری ہے۔ بہرحال وفاق کے بعد صوبوں میں بھی عدم اعتماد اور تبدیلی لانے کے حوالے سے سیاسی صف بندی شروع ہوچکی ہے کیا حکومت اور کیا اپوزیشن کیا خدشات کیا تحفظات نظریہ ضرورت یا مفادات موقف بدلتے بیانات یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اب بڑی سیاسی جنگ چھڑ چکی ہے بازیگر اپنی کاریگری میں لگ چکے ہیں۔

حکومت کی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کرنے سے معذرت کرلی۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے بی اے پی ارکان کو ملاقات کیلئے بلایا تھا لیکن بی اے پی ارکان نے پارلیمانی لیڈر خالد مگسی کی عدم موجودگی پر ملاقات سے معذرت کرلی۔ بی اے پی ارکان نے جواب دیا کہ کچھ ارکان اسلام آباد میں نہیں، واپسی پرملاقات ہوگی۔ بلوچستان عوامی پارٹی سیاسی صورتحال پرمشاورت کے بعدلائحہ عمل طے کرے گی۔ خیال رہے کہ اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد وزیراعظم عمران خان بھی متحرک ہوگئے ہیں اور وہ کراچی میں ایم کیو ایم کے بہادر آباد مرکز بھی پہنچے تھے۔ دوسری جانب صوبائی وزیر میر ظہوربلیدی نے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی۔ بلوچستان میں تباہ کن طرز حکومت کے پیش نظر بی اے پی کے مرکزی و صوبائی قائدین، ممبران سینیٹ، صوبائی و قومی اسمبلی اور اتحادیوں کی مشاورت سے قدوس بزنجو کی بد عنوان اور نااہل حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی جو بلوچستان میں بدامنی، بے چینی اور بری طرز حکمرانی کا موجب بن گئی ہے۔

دوسری جانب بی این پی کا کہنا ہے کہ بلوچستان حکومت پرانی ڈگرپرچل پڑی ہے عوام کا حکمرانوں پر اعتماد اٹھ چکا ہے ،جام کمال خان ون مین شو کے طور پر حکومت چلاکر بلوچستان کے وسائل کا سودا کررہے تھے جس پر بی این پی نے ان کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ، صوبہ بھر میں خوف کا سماں جبکہ حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی ، 33ارب روپے کہاں گئے یہ ظہوربلیدی بہتر بتاسکتے ہیں، ریکوڈک منصوبہ سمیت قومی وسائل کو فروخت کیا جارہا ہے وہ قرض جس کا ایک روپیہ بلوچستان میں نہیں لگا بلوچستان کے وسائل سے ادا کیا جارہا ہے۔ بہرحال مندرجہ بالا سطورمیں واضح طور پر بتادیا گیاہے کہ نظریہ مفادات پر حاوی رہتا ہے کون کس کی ضرورت پوری کرے گا وہیں جھکائو زیادہ ہوگا ۔اس سیاسی دنگل میں پہلوان اپنی مہارت دکھانے کیلئے اتر گئے ہیں کون کس کو کیسے پچھاڑ دے گا ،کاریگری کے ساتھ بازیگری شروع ہوچکی ہے چند روز انتہائی اہم ہیں جہاں بہت بڑے سیاسی بھونچال آئیںگے۔

One Response to “بنی گالہ کی پہاڑی سے اترائی، باپ کا دائو پیج، قوم پرستوں کا موڈ بھی تبدیل”

Comments are closed.