وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر قربتوں کی جہاں ضرورت حکومت کو پڑرہی ہے وہیں وزراء کے بیانات اتحادیوں کی دوری کا سبب بن رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کل تک تمام معاملات سیاسی حوالے سے اپنے خاص نمائندگان کو سونپ دیتے تھے مگر اب وہ خود بھی براہ راست اپنی جماعت کے اراکین اور اتحادیوں کے ساتھ ملاقات اور رابطے کررہے ہیں کیونکہ اس وقت نمبر گیم پورے کرنے اور اپنے ساتھیوں کو زیادہ خوش کرنے کی ضرورت ہے ناکہ ان کی دل آزاری کرکے اپنی پوزیشن کو مزید کمزور کیاجائے۔
اس وقت تمام سیاسی جماعتیں اپنے ہی ارکان پر نظریںجمائے رکھی ہیں کہ عین وقت پر وہ دوسری پارٹی کا حصہ نہ بنیں۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے چوہدری برادران سے طویل عرصے بعد ملاقات کی اور تعلقات کو معمول پر لانے کے حوالے سے بات چیت کی خاص کر عدم اعتماد کی تحریک کے متعلق حمایت پر بھی بات کی۔ ق لیگ کی پوزیشن اس وقت کیا ہے حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ق لیگ کے قائدین مسلسل اپوزیشن کے قائدین سے بھی ملاقاتیں اور رابطے کررہے ہیں یقینا ق لیگ اپنے شرائط پر عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت کرے گی مگر ان کے مطالبات کھل کر سامنے نہیں آئے ہیں البتہ یہ معلومات ضرور سامنے آرہی ہیں کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ اور وفاق میں اہم عہدے ق لیگ کے اہم شرائط میں شامل ہیں جس پر اپوزیشن ا ورحکومت کی جانب سے انہیں کوئی خاص تسلی نہیں دی گئی ہے۔
بہرحال سیاسی توڑ جوڑ جاری ہے عین اس وقت وفاقی وزیر داخلہ نے ایسا بیان دے دیا کہ اتحادیوں میں دراڑیں پڑنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کوئٹہ میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر کہاکہ میرا خیال ہے کہ ہمیں صلح صفائی کی طرف جانا چاہیے۔کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشید احمد نے اپوزیشن کو مشورہ دیا کہ الیکشن میں ایک سال رہ گیا ہے، بہتر یہ ہے کہ الیکشن کی تیاری کریں، اپوزیشن تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرے، یہ نہ ہو آپ 10 سال لائن میں لگے رہیں۔ ہمیں مل بیٹھ کر مذاکرات سے کوئی حل نکالنا چاہیے۔
انہوں نے ایک بار پھر دعویٰ کیا کہ تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کو ناکامی ہو گی اور عمران خان 5 سال پورے کرے گا، اپوزیشن اپنی شکست کوتسلیم کرتے ہوئے اسی تنخواہ پرکام کرے گی۔ ہمیں صلح صفائی کی طرف جانا ہوگا کیونکہ اپوزیشن نے ہارنا ہے، اپوزیشن نے ہارنے کے بعد بھی ہمیں تنگ کیے رکھنا ہے۔ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ بلوچستان عوامی پارٹی عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے، میں بھی چٹان کی طرح عمران خان کے ساتھ کھڑا ہوں ،باقی لوگوں کا ذمہ دار نہیں ہوں۔شیخ رشید کا کہنا تھا میں ان لوگوں کی طرح نہیں کہ 5 سیٹوں پر صوبے کی وزارت اعلیٰ کے لیے بلیک میل کروں۔صحافی کی جانب سے سوال پوچھا گیا کہ آپ نے 5 ووٹوں کا اشارہ جام کمال کی طرف کیا ہے؟ جس پر شیخ رشید نے کہا کہ میں نے پنجاب کی سیاست کی بات کی ہے۔
دوسری جانب مسلم لیگ ق کے رہنما اور وفاقی وزیر مونس الٰہی کا شیخ رشید کے طنزیہ بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہناتھا کہ میں شیخ صاحب کی عزت کرتا ہوں، لیکن شیخ رشید بھول رہے ہیں کہ وہ اسی جماعت کے لیڈران کے بزرگوں سے اسٹوڈنٹ لائف میں پیسے لیا کرتے تھے۔ایک طرف شیخ رشید صاحب اپوزیشن کے ساتھ صلح ومشورے کی بات کررہے ہیں تو دوسری جانب ایسا بیان داغ دیا کہ اپنے اتحادی ہی پھٹ پڑے، اس سے یقینا سیاسی حوالے سے اثر تو پڑے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حالات کو کس طرح اپنے حق میں رکھا جاسکتا ہے کہ اتحادی بھی ساتھ چلتے رہیں۔