|

وقتِ اشاعت :   March 15 – 2022

(پرو فیسر ڈا کٹر پر ویز ہود بھائے کا یہ مضمون 26 فروری 2022 کو روزنامہ ڈان میں شائع ہوا۔روز نامہ آزادی کی قارئین کے لیے اس کاترجمہ یہاںپیش کیا جارہا ہے۔)
سیکور ٹی فور سز پر حملوں میں مو جودہ معمولی اضافہ(ٗuptic )سے ہم ایک بار پھر اسی جانی پہچانی معمول پر آ گئے کہ دہشت گردی کا واقعہ ہونے اور الزام لگنے کے درمیان مشکل سے چند منٹ کا فرق ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں بغیر ثبوت اور تحقیق کے الزام لگانا کبھی تبدیل نہیں ہوا۔جو کچھ بھی ہو اس میں غیر ملکی طاقتوں کا ہاتھ ہے۔مقامی سیاسی مخالفین اگر وہ مکمل امن پسند بھی ہوں اورحادثہ سے انکا دور کا واسطہ نہ بھی ہو، اس امید سے ان پر غیر ملکی ایجنٹ ہونے کا لیبل لگا کر انہیں تختہ مشق بنا دیا جا تا ہے کہ ’’خوف ‘‘ انہیں بے جان (paralysed ) اور بے زبان (speechless ) بنا دیگی۔تین ہفتہ قبل حفیظ بلوچ کو جبری طور لا پتہ کرنیکی وجہ بھی یہی سوچ تھی۔اغواکار سیاہ رنگ کے پک اپ میں سوار تھے۔یہ ہو نہار طالبعلم قائد اعظم یونیورسٹی میں میرے ڈیپار ٹمنٹ میں پار ٹیکل فزکس (Particle Physics )میں ایم فل کر رہا تھا۔یہ واقعہ اسلام آباد لوٹ کر فا ئینل تھیسز (thesis ) جمع کرنے کے چند روز پہلے اس کے آبائی شہر خضدار میں پیش آیا۔اغوا کاروں نے اسے ا س کے خوفزدہ سٹو ڈنٹس اور ساتھی ٹیچرز کے سامنے اٹھایا ،جہاں وہ ایک چھوٹے پرائیویٹ سکول میں پڑھا رہا تھا۔مقامی پولیس ایف آئی آر(FIR ) درج کرنے سے لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔
حفیظ بلوچ کو کچھ پیسوں کی شدید ضرورت تھی اس لئے اس نے سردیوں کی چھٹیوں میں گھر جا کر ان پیسوں کے بندوبست کر نے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسکے اسا تذہ اور ساتھی طلبا ء نے مجھے بتایا کہ وہ کتابوں کا کیڑا (bookworm )تھا۔اسکا ذرا برابر بھی کسی پر تشدد گروہ سے تعلق نہیں لگتا تھا۔خوف یہ ہے کہ سیکیورٹی فور سز کااسکے ساتھ سلوک کیا ہوگا ؟ حراست میں حفیظ پر لازمی غیر ملکی ایجنٹ ہونے کا الزام لگے گا۔ دوسرے انگنت بلوچ نوجوانوں کی طرح جنہیں ماضی میں اٹھا یا گیا اسے بھی اس آزمائش کے دوران جذباتی emotional) ) اور شاید جسمانی(Physical ) گہرے زخم (deep scar )لگا ئے جا ئیں۔کو ئی نہیں جا نتا کہ وہ دوبارہ کبھی زندہ ملے گابھی یا نہیں۔اس سے بلوچوں کی شکایات کا بڑھتا ہوا احساس مزید بڑھے گا۔
کہا جا تا ہے پا کستان کے بیرونی دشمن قومی یکجہتی (National integration )کے درپے ہیں۔لیکن وہ جو قومی یکجہتی کے بھیس میں خفیہ کھیل کھیلتے ہیں، قومی یکجہتی کو نقصان پہچانے کے کہیں زیادہ ذمہ دار ہیں۔انکی وجہ سے 2001 سے لیکر 2014 تک دہشت گردی نے ہمارے ملک کو شدید نقصان پہنچا یا تھا۔اگر چہ غیر ملکی دشمن طا قتوں کی بھی کو شش تھی کہ پا کستان کو نقصان پہنچا ئیںلیکن اس خوفناک عرصے میں پا کستان کو زیادہ تر زخم اپنوں نے لگا ئے تھے۔
9/11 کے بعدجب جنرل پرویز مشرف نے امریکنوں کا ساتھ دیا اور انکے نام نہاد ’’ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں شامل ہو گئے تو ملک میں دہشت گرد حملے روز کا معمول بن گئے۔اس سے قبل پا کستان افغان طا لبان کا سب سے بڑا حما یتی تھا، اور ہر کوئی جا نتا ہے کہ یہ حمایت بعد میں بھی خفیہ طریقے سے جاری رہی لیکن ظاہری طور پر پاکستان نے طالبان کے دشمن کی حما یت کا اعلان کیا ہوا تھا ۔اس دھوکہ دہی کو بھانپ کر رد عمل میں مدرسوں کے مذہبی جو شیلے لڑکوں نے بازاروں ،ہسپتالوں اور سکولوں میں اپنے آپ کو اڑانا شروع کیا۔اسٹیبلشمنٹ(establishment ) کا کہنا تھا کہ تمام دہشت گرد یا تو غیر ملکی ہیں یا انہیں غیر ملکی مدد حاصل ہے۔اس وقت زبان زد عام یہ بات تھی کہ ’’ کیسے مسلمان کا قاتل مسلمان ہوسکتا ہے ‘‘بیرونی ہاتھ کے ملوث ہو نے کا سب سے بڑا وکیل مرحوم جنرل حمید گل تھے۔میرا پہلا سامنا اس مشہور جنرل سے 1998 کے آس پاس قائد آعظم یو نیورسٹی کے فزکس آڈیٹوریم میں ا س وقت ہوا جب وہ وہاں سا معین سے خطاب کرنے آئے تھے۔اپنے خطاب میں اس نے اس بات پر زور دیا کہ ’ ’پا کستان دنیا بھر میں جہاد کی قیادت کرے‘‘۔ سوال جواب کے دوران میں نے اسے ہٹلر کا بھا ئی کہا ، اس پر وہ بہت خوش ہوئے۔پھر ہم کئی بار ٹی وی چینل پر پرجوش بحث مبا حثہ کرتے رہے۔ٹی وی پر میرا ان سے آ خری مبا حثہ 2014 کے شروع میں ا س وقت ہوا جب چند گھنٹے قبل یکے بعد دیگرے دو خوفناک خود کش حملے ہو چکے تھے۔جنرل کا موقف تھا کہ یہ بمبارز (Bombers ) غیر مسلم ہیں کیو نکہ ان کا ختنہ نہیں ہوا ہے۔اس نے ناراضگی میں ثبوت دینے سے انکار کیاتھا۔ سچ اس وقت سا منے آنا شروع ہوا جب مو لا نا فضل اللہ کے جنگجوئوں نے 2008 میں سوات پر خونی قبضہ کیا اور اس وقت کی طاقتیں ، وہ جو بھی ہوں ، پسندیدگی کی نظروں سے مو لا نا اور غیر معروف منگل باغ کو دور سے دیکھتے رہے۔یو ٹرن (U-turn ) بعد میں اس وقت آیا جب 2014 میں آرمی پبلک سکول پشاورکے 149 بچوں اور انکے اساتذہ کا قتل عام ہوا۔او ر ’’ انکار ‘‘ کا موڈ بند ہو گیا۔اسکے بعد فوج نے’’ اپریشن ردالفساد ‘‘شروع کی ۔فساد ایک ایسا لفظ ہے جسے صرف اندرونی تنازعہ میں استعمال کیا جا تا ہے نہ کہ بیرونی دشمن سے جنگ کی صورت میں۔ اچانک پا کستا نیوں نے پا کستان ائیر فورس کے جیٹ طیاروں کی شمالی وزیرستان کے اہداف پر بمباری اور توپ خانہ کی پہاڑوں کے اہداف کو نشانہ بنا نے کی پروپگنڈا ویڈیو کلپس ٹی وی پر دیکھنے شروع کیے۔آپکو یقین نہیں آئیگا اور آپ بار بار اپنی آنکھیں ملیں گے،کہ کیسے اسلامک ریپبلک آف پا کستان کے جیٹ طیارے ان طا لبان جنگجوئوں پر بمباری کریں گے جنکی منزل پاکستان کو اسلامی ریاست بنا نا ہے؟ انہیں غیر مسلم کیسے پیش کیا (potrayed )جا سکتا ہے؟ اس حقیقت کوتسلیم کر نے میں وقت لگا کہ فضل اللہ کا تحریک طالبان پا کستان حقیقت میں مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اب کابل کے افغان طا لبان کی حکومت مسلسل انہیں پناہ اور مدد دے رہی ہے۔وہم کا یہ بلبلہ بھی آخرکار پھٹ گیا۔اسکے با وجود ایک دن ٹی ٹی پی کو انڈین ایجنٹ کہا جاتا ہے تو دوسرے دن گلے لگایا جاتا ہے۔یہ الجھا ؤ پہلے کی طرح اب بھی جاری ہے۔
آئیے ٹی ٹی پی کوجیسے ہے ویسے رہنے دیں۔ بلو چستان کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ سچ کیا ہے؟انڈین مدا خلت کتنی زیادہ ہے؟ انڈیا بلو چستان میں پاکستان کے مشکلات سے با خبر ہے۔عام طور پر جب بھی ایک آبادی ناراض یا منحرف ہوتی ہے بیرونی دشمنوں کو وہاں اتحادی ملنا آسان ہو تا ہے۔انڈیاکا خیال ہے کہ پاکستان نے انڈین سکورٹی فور سز پر حملوں کے لیئے انڈین کشمیر سے لوگ بھر تی کیئے۔1971 میں انڈیا نے بنگا لیوں کی بیگا نگی (alienation )کا کا میاب فائدہ اٹھا کر پاکستان کو دو ٹکڑے کیا۔آج بلو چوں کی بیگانگی کو دیکھ کر کئی انڈین یہ کہہ رہے ہیں کہ’’ پا کستان کے خلاف بلو چستان انڈین ترکش میں ایک تیر ہے‘‘۔انڈین جاسوسی ادارے کے سربراہان، وکرم سوڈ، اجیت ڈوول اوراسی طرح وزیر اعظم مودی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ پا کستان کشمیر میں جو کچھ کر رہا ہے اسکا ویسا ہی جواب دیں گے۔ پرامٹ پال چودھری جیسے سٹریٹیجسٹ (strategists ) کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ’’ بلو چوں کے حقوق کی تحریک پر پاکستان کی مبالغہ آمیز خوفزدگی (exagerated fear ) کو بھڑکا کر بدلہ لیا جا سکتاہے‘‘۔اسکا کہنا ہے ’’انڈیا کو امید کر نی چا ہئے کہ فوج کی مخالفت کو ختم کر نے کی حد سے بڑھ کر کاروا ئیاں بلوچستان میں لگے آگ کو بھڑکائے رکھے گی۔حفیظ بلوچ اور دوسرے بلوچ نوجوان جنکی تعداد سینکڑوں میں ہے، کے اغواکاروں نے پرامٹ پال چودھری اور دوسرے انڈین کے جال میں لٹکائے چارہ(dangled bait ) کو اٹھا لیا ہے۔اسلام آباد میں تمام بلوچ طلبا ء میں شدید ناراضگی اور خوف پایا جاتا ہے۔بلوچوں کے آئینی حقوق کی دیدہ دلیری سے خلاف ورزی قومی جذبہ اور وفاق کو کمزور کر رہی ہے۔اس سے پہلے کہ ہمارے ملک کو مزید نقصان پہنچے ان قوتوں کے غیر آئینی اعمال کو روکنا چاہیے۔