کوئٹہ: آل پاکستان واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک ورکرز یونین(سی بی اے) شیخ ماندہ تھرمل زون کے زیر اہتمام شیخ ماندہ پاور ہاؤس کو اپ گریڈ کرکے چلانے، ملازمین کیلئے25% اور 15% ڈی آر اے الاؤنس اورہاؤس رینٹ میں 44% اضافے کی منظوری دینے، سر پلس اسٹاف کی ایڈجسٹمنٹ کا مسئلہ سی بی اے یونین کے ساتھ بات چیت کے ذریعے حل کرنے، گڈو، جامشورو، لاکھڑا، مظفر آباد، فیصل آباد سمیت شیخ ماندہ تھرمل پاور اسٹیشن کے مزدوروں کو بھی آئی پی پیز کی طرح 60% کیپسٹی الاؤنس دے کر مزدوروں کی تنخواہوں، پروموشن اور اپ گریڈ ایشن کا مسئلہ حل کرنے، سی بی اے یونین کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسائل کے حل کیلئے فوری اقدامات اٹھانے اور پاور کمپنیوں کو تحلیل کرکے واپڈا کو بحال کرنے کیلئے شیخ ماندہ پاور ہاؤس کے گیٹ کے سامنے مظاہرہ منعقد کیا گیا۔
مظاہرین سے یونین کے صوبائی چیئرمین محمد رمضان اچکزئی، وائس چیئرمین عبدالباقی لہڑی، جوائنٹ سیکریٹری محمد یار علیزئی، سیکریٹری نشر و اشاعت سید آغا محمد، زونل چیئرمین علی احمد کاسی اور زونل سیکریٹری بسم اللہ خان درانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ واپڈا اور پاور کمپنیوں کے مزدور آج سیکورٹی الرٹ کے باوجود اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر اپنے جائز حقوق کی حصولیابی کیلئے مجبوری میں مظاہرہ کر رہے ہیں کیونکہ مزدوروں کو معلوم ہے کہ اگر ان کے مسائل حل نہیں ہوئے تو وہ زندہ درگو ہوجائیں گے اس لیے وہ وزیر اعظم عمران خان، وفاقی وزیر انر جی حماد اظہر، چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری، گورنر بلوچستان ظہور آغا، وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو سمیت صوبے کی نمائندہ سیاسی پارٹیوں کی توجہ شیخ ماندہ پاور ہاؤس کو اپ گریڈ کرکے چلانے اور شیخ ماندہ پاور ہاؤس کے مزدوروں اور کیسکو ملازمین کے مسائل کے حل کی طرف مبذول کرا رہے ہیں۔ یونین رہنماؤں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے صوبہ بلوچستان میں 1958 ء کے بعد شیخ ماندہ پاور ہاؤس بنایا گیالیکن وفاق کا ایک پاور ہاؤس بھی صوبے میں بند کرکے صوبے کے صارفین اور مزدوروں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے جبکہ پرائیویٹ حبیب اللہ کوسٹل پاور ہاؤس کو بجلی کی پیداوار نہ کرنے کے باوجودکیپسٹی چارجز کی مد میں 60% رقم اداکی جارہی ہے
پرائیویٹ پاور ہاؤسز کے ساتھ انہی معاہدوں کی وجہ سے بجلی مہنگی ہوئی جس کی وجہ سے صنعت اور زراعت زبوں حالی کا شکار ہیں اور صوبے کے بے روزگارنوجوانوں کو ملک دشمن عناصراپنے مقاصد اور ریاست و صوبے میں بد امنی کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اور مقتدر قوتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبہ بلوچستان کو سیکورٹی اداروں پولیس، لیویز اور ایجنسیوں کے ذریعے کنٹرول کرنے کے بجائے دو وقت کی روٹی کے محتاج پسے ہوئے غریب عوام کیلئے روزگار پیدا کریں اور بے روزگار نوجوانوں کو کم سے کم 20 ہزار روپے بطور اعزازیہ اور تمام نوجوان مرد و زن کو ہنر مندی کی ٹریننگ دے کر انھیں باعزت روزگار فراہم کیا جائے۔ یونین رہنماؤں نے کہا کہ سخت سیکورٹی تھریٹ کے باوجود کارکن اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ ایک ڈمی یونین کے چند عہدیدار ڈر کے مارے اپنی سرکاری ڈیوٹی سے بھی غیرحاضر رہے ایسے عناصر مزدوروں کی نمائندگی کیسے کر سکتے ہیں؟ انہوں نے وفاقی حکومت اور تمام مقتدر اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بلوچستان میں مزدوروں کے مسائل حل کرکے صوبے میں امن کی خواہش رکھنے والے معماروں کو عزت دیں تاکہ صوبے میں امن قائم ہو سکے اور ریاست پر صوبے کے عوام کا اعتماد بحال ہو۔مقررین نے کہا کہ جیسے ہی حالات بہتر ہوں گے سی بی اے یونین کے کارکن کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں پریس کلبز اور سڑکوں پر واپڈا اور پاورکمپنیوں کے مزدوروں کے جائز حقو ق کی حصولیابی کیلئے جدوجہد کریں گے۔