ملک میں جمہوریت کا تسلسل ویسے توچل رہا ہے گزشتہ دو حکومتوں نے اپنی مدت پوری کی ہے گوکہ اس دوران وزیرا عظم تبدیل ہوتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ دہائیوں سے چلتا آرہا ہے، ایسا بھی ہوا ہے کہ چند ماہ کے بعد حکومت تحلیل کردی گئی تو کبھی ڈیڑھ سال اور پھر چار سال کے قریب آتے ہی سیاسی بحران ضرور پیدا ہوا ہے۔ اس کی بڑی وجہ سیاسی کشمکش رہی ہے جمہوری حکومتوں کی رخصتی میں ہروقت سیاسی جماعتیں خود ہی پیش پیش رہی ہیں، سیاسی چپقلش نے نظام کو اس قدر کمزور کرکے رکھ دیا ہے کہ آج تک پارلیمان زیادہ مضبوط دکھائی نہیں دیتی۔ ہر معاملہ عدالتوںمیںجاتا ہے جس کی ایک واضح مثال موجودہ سیاسی کشیدگی ہے۔
کہ کس طرح سے پارلیمنٹ کی جنگ کو سڑکوں پر لایاگیا ۔عدم اعتماد کی تحریک کے معاملے پر اسمبلی اجلاس میں تاخیرکا معاملہ بھی عدالت عظمیٰ تک پہنچ گیاہے۔ گزشتہ دنوں چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست پر سماعت میں ریمارکس دئیے ہیں کہ یہ سارا قومی اسمبلی کا اندرونی معاملہ ہے لہٰذا بہتر ہوگا کہ اسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندر لڑی جائے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ تحریک عدم اعتماد سے پہلے سیاسی جلسے روکنے کیلئے سپریم کورٹ بارکی درخواست پر سماعت کررہا ہے۔سماعت کے سلسلے میں شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر سیاسی رہنما بھی عدالت پہنچے۔دورانِ سماعت سپریم کورٹ بار کے وکیل نے کہا کہ اسپیکر کو 25 مارچ کو اجلاس طلب کرنے کا کہا گیا، آرٹیکل 95 کے تحت 14 دن کے اندر اجلاس بلانا ہوتا ہے، 14 دن سے زیادہ تاخیر کرنے کا اسپیکر کے پاس کوئی استحقاق نہیں، عدم اعتماد پر فیصلے تک اجلاس غیرمعینہ مدت تک ملتوی نہیں کیا جاسکتا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ کسی ایونٹ کے سبب کوئی ووٹ ڈالنے سے محروم نہ رہ جائے۔
ووٹ ڈالنا ارکان کا آئینی حق ہے، عدالت اسمبلی کی کارروائی میں مداخلت کی قائل نہیں، عدالت صرف یہ چاہتی ہے کہ کسی کا حق متاثر نہ ہو۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ یہ سارا قومی اسمبلی کا اندرونی معاملہ ہے، بہتر ہوگا کہ اسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندر لڑی جائے، ہم زیادہ گہرائی میں جانا نہیں چاہتے۔چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں بتائیں وہ کیا چاہتی ہیں؟ سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی طاقت پارلیمنٹ میں ظاہر کریں، عدالت نے سیاسی قیادت کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنا ہے تاکہ جمہوریت چلتی رہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ لوگوں کو لاکر کسی ووٹ ڈالنے والے کو روکنے کی اجازت نہیں دیں گے، کوشش کریں ڈی چوک پر جلسہ نہ ہو، اکٹھے بیٹھ کر اتفاق رائے پیدا کریں۔
بہرحال سپریم کورٹ نے واضح طور پر یہ بتادیا ہے کہ اسمبلی کی جنگ کو اسمبلی کے اندر لڑا جائے ،ووٹ کاسٹ کرنے پر بھی چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں ،اب فلورکراسنگ کا معاملہ ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد الیکشن کمیشن کے پاس جائے گا، ڈی سیٹ کرنا اور اس کے بعد کے قانونی معاملات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ تیس دن کے اندر کیاجائے گامگر اس کے بعدبھی یہ معاملہ چلتا رہے گا۔مگر اس سے ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ سیاسی جنگ اور محاذآرائی مزیدبڑھے گی اور اس طرح سے نئی حکومت آنے کے بعد پھر مخالفین مدِ مقابل ہونگے۔ بدقسمتی ہے کہ ہمارے یہاں گورننس پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی، سیاسی انتقامی کارروائیاں اور غلط فیصلوں کی وجہ سے حکومت کرنے والوں کو چیلنجز کا سامنا کرناپڑتا ہے مگر یہ کب تک چلتا رہے گا ، استحکام اورخوشحالی کا خواب کیسے پورا ہوگا یہ بڑا مسئلہ ہے جس پر توجہ نہیں دی جاتی۔